مکرمی وبائی امرا ض سے ملک وقوم کو چھٹکارا کب ملے گا یہ سوال ہر محب وطن پاکستانی کرتا ہے تین دہائیوں مسلسل پولیو مہم وقفہ وقفہ کے ساتھ جاری ہے مگر ابھی تک پاکستان مکمل طور پر پولیو فرری مالک کی صف میں شامل نہیں ہو سکا جبکہ ڈینگی ملیریا اور آشوب چسم گانکو وائرس کرونا جیسی وبائیں منڈالتی دیکھائی دے رہی ہیں اوراب ایک نئے وائرس نپاہ (nipah)کا محکمہ صحت نے خدشہ ظاہر کر دیا غور کریں ان وبائی امراض سے انسانوں کی اموات معمول بنی ہوئی ہیں وبائی امراض کا خاتمہ کیسے ممکن ہے یہ ذمہ داری کس کی ہے بلدیاتی اداروں کا کام کیا ہے پاکستان سے مکھیوں مچھروں کو ختم بھی نہیں کیا گیا دھرتی پر گندگی کے ڈھیر اور نکاسی آب کا ابتر نظام آلودگی او ر صحت وصفائی کی صورت حال کو دیکھ کر اور عوام میں عدم شعور کے باعث ان وبائی امراض سے تحفظ کیسے ممکن ہے جبکہ ہر بلدیاتی ادرہ میں سپرے سمیت صحت وصفائی کا بجت مگر مکھیوں مچھروں اور وائرس کی بہتات دکھ کی بات ہے بلد یات صحت وصفائی کے فنڈ کو درست استعمال کرے اور عوام میں صحت وصفائی کا شعور کرنے کی تھان لیں نہ کہ فوٹوسیشن کروا کر اپنی کارکردگی کا پر چار کر کے ان وبائی امراض کا خاتمہ ممکن ۔ بلدیاتی اداروں کا عملہ سیاست اور سرکار کے تابع اس حد تک ہوتا ہے یہ لوگ مجبورا اپنا کام چھوڑ کر ان کے کام کرتے ہیں حالانکہ ان کی تنخواہیںحکومت کے خزانے سے جاتی ہے علاقہ ازیںکو یہ بھی اختیار ہونا چاہے ایسے افراد جو گندگی پھلاتے پائے جائیں ان کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائے ۔ (علی حسن ،پنڈی بھٹیاں)