اسلام آباد(خبر نگار) عدالت عظمیٰ نے لائف انشورنس سے متعلق ایک مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ انشورنس پالیسی لینے والا شخص فوت ہونے کے بعد ان کے ورثا کا دعویٰ تکنیکی اعتراضا ت لگا کر مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے ۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے متوفی عبد الرحمان کے بیٹے عطاالرحمان کو لائف انشورنس کی رقم ادا کرنے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی اپیل خارج کردی ہے اور قرار دیا ہے کہ انشورنس کے دو سال بعد کسی قسم کے دستاویزات یا غلط بیانی کو وجہ بنا کر پالیسی ختم نہیں ہوسکتی۔عدالت عظمٰی نے اپنے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ انشورنس کرانے والے کی فوتگی پر طبی وجوہات کا بہانہ بنا کر انشورنس کی رقم نہیں روکی جاسکتی،،پالیسی دیتے وقت انشورنس کمپنی تمام ریکارڈ چیک کرتی ہے ۔تفصیلات کے مطابق واپڈا کے ملازم پشاور کے رہائشی عبد الرحمان نے 2002میں اسٹیٹ لائف انشورنس پالیسی حاصل کی تھی لیکن سات فروری 2010کو ان کا انتقال ہوا۔والد کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے عطا الرحمٰن نے دعویٰ دائر کیا لیکن اسٹیٹ لائف نے اس بنیاد پر لائف انشورنس کی ادائیگی سے انکار کیا کہ متوفی ذیا بیطس اور عارضہ قلب میں مبتلا تھا اور انھوں نے اپنی بیماریوں کو چھپا کر غلط بیانی کی تھی۔کیس کانو صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ پچھلے روز جاری کیا گیا جو جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے جس میں اسٹیٹ لائف نشورنس کارپوریشن کو رقم کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے ۔