اپنے ہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادیوں کا تحفظ دینا ہر ریاست اور حکومت کا بنیادی فریضہ ہے جس کے بغیر حکومتی نظام جبر کا نظام بن کر رہ جائے گا۔ ہمارامذہب اور ہمارا آئین اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔پاکستان میں اقلیتوں کو یکساں آزادی حاصل ہے۔قائد اعظم نے پاکستان کے ساتھ الگ نظریہ بھی دیا۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو استعمال کرنے کا ڈھنگ آنا چاہیے۔ کوئی بھی مذہب تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ کوئی بھی مذہب تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ ہر مذہب محبت‘ امن اور سلامتی کو فروغ دیتا ہے کسی کو اپنی مرضی دوسروں پر ٹھونسنے کی اجازت نہیں۔ہمارے ہاں افغان جنگ کے بعد ہی دہشت گردی پھیلی جس میں ہزاروں جانوں اور کروڑوں کی املاک کا نقصان ہوا۔ اگر ہم دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کے لئے انتہا پسندانہ سوچ کو روکنا ضروری ہو گا۔ انسانی حقوق سے متعلق قوانین میں حالیہ تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔پاکستان میں مسلمانوں کی ہی مختلف مذہبی جماعتیں اور فرقے، جو اس وقت غیروں کے دیے ہوئے زخموں کی وجہ سے منقسم ہیں، اْنہیں ساتھ ملانے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں رونما ہونے والے عالمی حادثات و واقعات نے مذہبی رہنماؤں کو بھی بین المذہب ہم آہنگی کی حمایت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ معاشرے میں سیاست اور مذہب کے انضمام سے ملک میں اقلیتوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ۔ انسانی حقوق کی کسی بھی تحریک کی بنیاد برابری اور عدم امتیاز کے اصول پر ہوتی ہے۔بین المذاہب ہم آہنگی ہمارے معاشرے کا حساس موضوع ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمارے معاشرے میں بہت سے مذاہب کے لوگ بستے ہیں اور بحیثیت پاکستانی ان کوبھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ہمیں۔ مگر افسوس ہمارے معاشرے میں اِس موضوع پر بات کرنے سے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت قیام پاکستان کے وقت سے ہے۔ ہندوستان سے پاکستان آنے والے مسلمانوں کو غیر مسلموں نے نشانہ بنایا تھا اور اْن کی پاک دامن خواتین کی عزتیں تار تار کی تھیں مگر اس وقت ہم بین المذہب ہم آہنگی کی طرف کیا توجہ دیتے اْلٹا ملک دشمن قوتوں کی رچائی سازشوں کا نشانہ بن کر فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے جس سے ایک مضبوط قوم کی تشکیل دینے کے بجائے ہم صوبائی اور لسانی تعصبات کا شکار ہو کر اپنے پاکستانی بھائیوں کا ہی خون بہاتے رہے۔ تمام عقائد کے حامیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ رواداری، امن، صبر اور بین المذاہب ہم آہنگی کی حکمت عملی پر عمل کریں۔ ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ یہ ملک جتنا مسلمانوں کا ہے اتنا ہی ان کا بھی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کمیشن قائم کیاگیا ہے۔یہ اقلیتی کمیشن سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کیاگیا ہے۔اقلیتی کمیشن جو بھی سفارشات پیش کرے گاہم ان پر عملدرآمد کروائیں گے۔ایک ہندو کو اقلیتی کمیشن کا چیئرمین مقرر کرکے حکومت نے سندھ میں بڑی تعداد میں موجودہندوبرادری کو پیغام دیا ہے کہ ان کے مندر محفوظ ہیں اوروہ خود بھی محفوظ ہیں۔ ہم اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کررہے ہیں۔اقلیتی کمیشن میں مسیحی برادری ،پارسیوں،سکھوں، ہندوؤں سمیت تمام اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔پاکستان میں جتنی بھی اقلیتیں ہیں مسلم برادری ان کے ساتھ ہے اوران کے حقوق کی محافظ ہے۔اس کے برعکس دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر میں سری نگر کی جامع مسجد کو تالا لگا ہوا ہے۔دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ہندوستان میں پارسی، مسیحی ،سکھ اور کم تر ذات کے ہندو بھی عدم تحفظ کاشکارہیں۔پاکستان اقلیتوں کو محبت کا درس دے رہاہے۔کرتار پور اس کی زندہ مثال ہے۔ہم نے کرتارپور میں من موہن سنگھ کو عزت سے بلایا اور عزت سے رخصت کیا۔یہ ہے مذہبی رواداری۔ اقلیتوں کی اپنی اہمیت ہے لہٰذاپاکستانی عوام کے تمام طبقات کو قبول کرنا ضروری ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی آبادی کے مذہبی معاملات کو مثبت طور پر ترقی دیگی جس سے اخلاقی اور مالی انقلاب آئے گا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ انصاف اور یکساں سلوک کریں، کثیر مذہبی ریاست کی حیثیت سے پاکستان مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک، عدم توازن اور اْنہیں نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وطن عزیز میں تعلیمی اداروں، سیمینار، یونیورسٹیوں، میڈیا، ورکشاپس اور جلسوں کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دینا انتہائی ضروری ہے۔مذہبی غلط فہمیوں، جہاد کی غلط بیانی، متعصبانہ مذہبی گفتگو، غیرمسلموں کی پاکستان سے ہجرت، اقلیتوں کے مقدس مقامات کا عدم تحفظ، غیرمنصفانہ سماجی و اقتصادی وسائل کی تقسیم، قومی تعلیمی نصاب میں بنیادی اسلامی ماخذ کا شامل نہ ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے لئے غیر منصفانہ انتخابی طریقہ کار بھی اقلیتوں سے دوری کا باعث ہے۔ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کا وجود اسی صورت عمل میں آسکتا ہے جب ہم تمام مذاہب کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ انہیں ایک مسلم ملک میں غیریت کا احساس نہ ہونے دیں۔ آج ہمیں قبولیت اور اشتراک کا پیغام تمام ہم وطنوں کے مابین پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک پْرامن اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئے بے حد ضروری ہے۔ پاکستانی حکومت اقلیتوں کے مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کی تعمیر و ترقی اور تحفظ کے لیے موثر اقدامات کر رہی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ اسلام نے غیر مسلموں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی مکمل ضمانت دی ہے۔ہمارے نبی ؐنے جب ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی تو اس میں تمام مذاہب کے احترام کو لازم قرار دیا۔ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں بین المسالک ہم آہنگی اور پھر بین المذاہب رواداری کے ماحول کو فروغ دے رہے ہیں۔ اسلام امن و سلامتی، باہمی اخوت، محبت اور بھائی چارے پر مبنی دین فطرت ہے۔ ہمیں باہم اتفاق و اتحاد اور تمام مذاہب کے ساتھ مل کر ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔ یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک کثیر المذاہب ملک ہونے کے علاوہ ایران، بھارت، افغانستان اور چین جیسی بہت اہم اقوام کا ہمسایہ بھی ہے جہاں پر مختلف قوموں ، عقائد اور مذاہب کا راج ہے۔ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کئے جانے والے حسن سلوک کے اثرات ہمارے خارجہ تعلقات پر بھی اثر انداز ہو تے ہیں۔