ہماری حکومتیں پاور سیکٹر کے مسائل کے حل میں مسلسل ناکام ہیں۔ ملک بھر میں حالیہ بریک ڈائون تو سسٹم کی خرابیوں کی محض ایک علامت ہے۔ پاکستان میں اس وقت 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحت موجود ہے جو ملکی ضرورت کے لیے نہ صرف کافی ہے بلکہ اس صلاحیت کو بروئے کار لا کر قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود پاور سیکٹر کو5 سو ارب سالانہ خسارے کا سامنا ہے جو پاور سیکٹر کی نااہلی اور غلط ترجیحات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اس نااہلی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے 22 ملین بجلی صارفین اور حکومتی خزانہ بل کی ادائیگی کی استعداد نہیں رکھتے اور صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ ورثے میںملی نااہلی کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ 23 سو ارب سے تجاوز کر چکا ہے جو قومی دفاعی بجٹ سے بھی دگنا ہے۔ موجودہ انحطاط پذیر نظام کی وجہ سے ایک تہائی بجلی ضائع ہورہی ہے اس وقت لائن لائسز 24 فیصد تک پہنچ چکے ہیں جبکہ پیپکو 15 فیصد بل وصولی میں ناکام ہے۔ پیپکو اس ناکامی سے مسلسل انکار کرتی آ رہی ہے اور کبھی بھی حکومت نقصان کے بارے میں حقیقی رپورٹ نہیں دی جاتی اور حکومت کو کل لائسز کا نصف بتا کر گمراہ کیا جاتا ہے۔پاور سیکٹر ماضی میں اس صورتحال سے دوچار نہ تھا بلکہ خراب گورننس اور حکومتی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ 25 برسوں سے مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ حکومت اور بین الاقوامی ڈونرز کو اس بات کو بخوبی احساس ہے کہ تنظیمی اور آپریشنل لحاظ سے واپڈا بطور حکومتی ادارہ مالی لحاظ سے کے قابل عمل نہیں رہا۔ نجی بجلی گھروں سے مہنگی بجلی خریدنے ،ڈسٹری بیوشن لاسنز ، مالی بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کی وجہ سے خسارہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ پاور سیکٹر کے مسائل کے حل کے لیے حکومت کی طرف سے پہلی بار 2007ء میں واپڈا کو تقسیم کرنے اور ادارے کو کارپوریٹ طرز پر چلانے کے لیے پاور ونگ کو پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس منصوبے کا مقصد اور پیپکو کا جواز عارضی بتایا گیا تھا۔ ڈسٹری بیوشن کمپنی کو مالی بوجھ کم کرنے کے لیے پرائیویٹائز کرنا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی وجہ سے نہ صرف حکومت پیپکو کو سرکاری تحویل میں رکھنے پر راضی ہو گئی بلکہ تھرمل پاور سیکٹر اور این ٹی ڈی سی کے ٹرانسمیشن سیٹ اپ بھی حکومتی تحویل میں آ گئے۔ سونے پے سہاگہ کے مترادف پیپکو نے مستقبل کی توانائی کی ضروریات کا تعین کرنے اور پاور سیکٹر کی ترقی اور نجی بجلی گھروں سے مہنگی بجلی خریدنے کا کام بھی اپنے ذمہ لے لیا۔ جب سے پیپکو نے براہ راست وزارت پانی اور بجلی کے ماتحت کام کرنا شروع کیا جس کے ماتحت پہلے ہی پرائیویٹ بجلی گھر کام کر رہے ہیں یہ ادارہ اپنی خودمختاری مکمل طور پر کھو چکا ہے۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ پیپکو ایک عرصہ سے واپڈا اور تقسیم کار کمپنیوں کی استعداد کار اور ٹرانسمیشن کی صلاحیت بڑھائے بغیر بہت زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ اوپر سے پاکستان میں نصف صدی سے جو چیک اینڈ بیلنس کا نظام کام کر رہا تھا وہ بھی بدعنوانی سے کھوکھلا ہو گیا۔ آج پیپکو اور واپڈا میں نگرانی اور احتساب کے نظام کا وجود تک نہیں۔ فیصلہ ساز اتھارٹی اور سنٹرل کنٹریکٹ سیل منصوبوں کی افادیت جانچے اور بغیر کسی میرٹ کے معاملات کو چلایا جارہی ہے۔ جب سے وفاقی حکومت نے مائیکرو مینجمنٹ میں بے رحمانہ مداخلت شروع کی ہے اور ادارہ ملک کے لیے معاشی درد سر بن چکا ہے۔ ڈسکوز کی سطح پر غیر ضروری احتساب ،غیر ذمہ دار بورڈ آف ڈائریکٹر زکی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ ڈسکوز کو نجی اور سرکاری ماہرین کی زیر نگرانی آزادی سے کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کل واپڈا اور علاقائی الیکٹرکسٹی بورڈز کام کر رہے ہیں۔ ڈسکوز پر بے پناہ کرپشن ،غیر ضروری بھرتیوں‘ اقربا پروری اور کمزور آپریشن‘ مینٹینس کے درست الزامات لگائے جا رہے ہیں۔اگر حکومت جرأت مندانہ اقدامات کرتی ہے تو بلوں کی عدم وصولی ،بجلی چوری‘ ٹیکنیکل لاسز اور بغیر میٹر کے بجلی کے استعمال ایسے مسائل سے آسانی سے بچا جا سکتا ہے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے صرف تین بڑی تجاویز ان سطور میں بیاان کی جا رہی ہیں ان اصلاحات اور چند ٹیکنیکل تبدیلیوں سے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے خسارے پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو ایک مرکزی سپروائزری اور میجنگ کمپنی بنا کر ڈسکوز کو براہ راست اس کمپنی کے ماتحت کرنا ہوگا۔ یہ کمپنی انتظامی فیصلوں اور ان کی نگرانی کرے گی بلکہ بدعنوانی، ٹیکنیکل لاسز اور چوری کے انسداد کے لیے بھی کافی ہوگی۔ بس اس کمپنی کا چیئرمین یا سی ای او اپنے کام میں ماہر اور ہائی پروفیشنل ہونا چاہیے جبکہ بورڈ کے دوسرے ارکان ٹیکنیکل اور کوالیفائیڈ ہونے چاہئیں۔ بورڈز میں صرف دو ارکان حکومتی نمائندگی کریں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں منسٹری آف پاور کی مداخلت اور سیکرٹری لیول کے ریٹائرڈ افسران جو اس شعبے سے واقف نہیں کی بھرتیاں آپریشن نظام کو تباہ کر رہی ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری صرف منصوبوں کی منظوری اور آڈٹ کی حد تک ہونی چاہیے۔ لیزنگ یا پرائیویٹائزیشن حکومت کو رفتہ رفتہ کمزور کارکردگی دکھانے والے ڈسکوز کو مختلف پیکجز میں لیزنگ پر دینا ہوگا اور یہ کام 5 سے 10 سال میں مکمل ہوجانا چاہیے جبکہ ریونیو کے اہداف مقرر کرنا ہوں گے جن میں ہر سال اضافہ کیا جانا چاہیے۔ ڈسکوز کو پرائیویٹائز کرنے کا بہت کم جواز ہے۔ بہتر ہے ان کے آپریٹنگ سسٹم کو ٹھیک کیا جائے جیساکہ اسلام آباد اور فیصل آباد ڈسکوز میں ہے۔ نجی مینجمنٹ سے منافع بانٹنے سے ڈسکوز کی کاکردگی بہتر ہوسکتی ہے اور حکومت کو نقصان کے بجائے منافع بھی مل سکتا ہے۔ٹھیکیدار سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کے ذمہ دار ہونگے۔ اس سے تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے مہنگے رئیل اسٹیٹ کی فروخت کو روکنے میں بھیمدد ملے گی۔ کے ای ایس سی/ کے الیکٹر ک کی نجکاری کے حوالے سے نقص اور خرابیوں سے بھی صرف نظر کرنا ہوگا۔ تقسیم کاری کے نظام کا موثر احتساب اور مضبوط قانون فریم ورک کے نفاذ سے ہی بجلی چوری کا خاتمہ ممکن ہے۔ علاوہ ازیں میٹرنگ کے نظام کیلئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنانا اور ریونیو کی صحیح کولیکشن کو یقینی بنانابھی ضروری ہے۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے ٹھیکیداروں اور پیپکو کی طرف سے صوبائی حکومتوں کو دی جانیوالی معلومات کی روشنی میں انہیں پولیس اور مجسٹریٹ مہیا کریں۔ بجلی کی ترسیل جاری رکھنے کے لیے اس امر کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ بجلی کے قابل تجدید ذرائع (ہائیڈرو‘ سولر‘ ونڈ‘ بائیو گیس) کے ذریعے 10 بجلی کی پیداوار 10 سے 15 سال کے اندر اس کے موجودہ تناسب 30 فیصد سے بڑھا کر 75 فیصد تک کی جائے۔ بعض یورپی ممالک پہلے ہی ان قابل تجدید ذرائع کے ذریعے مطلوبہ ہدف کو پورا کر چکے ہیں۔ درآمدی تھرمل فیول پراجیکٹس پر، جن کے ذریعے ساٹھ فیصد بجلی پیدا کی جا رہی ہے انحصارکم سے کم کیا جائے کیونکہ ان کی سالانہ لاگت 5 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ اس کیلئے ایک درجن کم صلاحیت والے تھرمل پلانٹس بھی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ اس شعبہ کو سٹریم لائن رکھنے کے لیے بعض ترغیباتی اقدامات بھیکئے جانے چاہئیں۔ آغاز میں غریب لوگوں کیلئے بطور سبسڈی یہ کیا جائے کہ فی مہینہ 100 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرنیوالوں کو احساس پروگرام کے تحت نقد امدد اور خوراک کے تھیلے فراہم کیے جائیں۔ اس طرح کے اقدامات انڈونیشیا اور بعض دیگر ممالک میں کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ریاست اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے نیپرا میں بھی اصلاحات لا نا ہونگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نیپرا میں قابل اور پیشہ وا عہدیداروں کا تقرر کیا جائے۔آخری بات یہ کہ تقسیم کار کمپنیوں کو چاہیے کہ بجلی پیدا کرنے و الی کمپنیوں سے براہ راست بجلی خریدیں تاکہ ان کے سرمائے کو استحکام حاصل ہو جیساکہ بھارت اور دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ابتدائی طور پر بجلی خریدنے کیلئے براہ راست ادائیگی کا ایک تناسب طے کر لیا جائے۔گرتی ہوئی معیشت کیلئے بجلی کے شعبہ میں اصلاحات میں تاخیر کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔