اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک؍ نیٹ نیوز) ملک میں جون 2020 میں پیدا ہونے والے پٹرولیم بحران کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کو عہدہ چھوڑنے کی ہدایت کردی جس پر انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔وفاقی وزرا شفقت محمود اور شیریں مزاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا پٹرول کا بحران پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ اس سے پہلے بھی ہوا تھا، اب سے کئی سال قبل سردیوں میں بھی بحران آیا تھا اور پٹرول پمپس کے باہر قطاریں لگ گئی تھیں۔وزیر اعظم نے بحران کے بعد فیصلہ کیا کہ اس کی تحقیقات کی جائیں اور اس کی ذمے داری ایف آئی اے کو دی گئی جنہوں نے ایک رپورٹ تیار کی جو چند ماہ قبل کابینہ کو پیش کی گئی۔انہوں نے کہا رپورٹ پر فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ کی کمیٹی بنائی جائے گی جو اس رپورٹ کا مطالعہ کرے گی اور پھر اپنی سفارشات مرتب کر کے وزیر اعظم کو دے گی جس کے بعد وزیر اعظم اور کابینہ اس پر فیصلہ کریں گے ۔اسد عمر نے بتایا اس کمیٹی میں شفقت محمود، شیریں مزاری، اعظم سواتی اور میں شامل تھا، ہم نے اپنا کام کرنے کے بعد اپنی سفارشات مرتب کر کے دے دی تھیں جس کے بعد وزیر اعظم نے احکامات دیئے تھے کہ مزید کچھ معلومات دی جائیں اور ان کے اکٹھا ہونے کے بعد منظوری دے دی گئی۔انہوں نے بتایا ہم نے تین مختلف حصوں میں سفارشات کو ترتیب دیا اور سب سے پہلے وہ کارروائیاں ہیں جو مجرمانہ کارروائی کے زمرے میں آتی ہیں اور قانون کے مطابق اس پر کریمنل کیسز بننے چاہئیں، اس کے لئے ثبوت لائے جائیں گے تاکہ ان پر مقدمات چلائے جا سکیں۔وفاقی وزیر نے کہا اس سلسلے میں ایف آئی اے فرانزک انویسٹی گیشن کرے گی اور 90 دن کے اندر اپنی رپورٹ مکمل کرے گی۔انہوں نے کہا جن شعبوں کو دیکھنے کے لئے کہا گیا ہے ، ان کے تحت قانون کے مطابق کم سے کم انوینٹری رکھنے کی ضرورت پر غور کیا جائے گا کہ کیا آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے اس ضرورت کو پورا کیا؟ جو سیلز رپورٹ کی گئیں، کیا واقعی وہ سیلز ہوئیں یا حقیقت میں جو سیلز ہوئیں اور جو کاغذ پر دکھائی گئیں، ان میں فرق تھا، اگر فرق تھا تو کتنا تھا اور کس نے مجرمانہ فعل کیا۔وزیر منصوبہ بندی نے کہا یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کیا پراڈکٹ کی ذخیرہ اندوزی کی گئی اور اگر کی تو کس نے کی؟انہوں نے کہا رپورٹ میں ایک یہ بھی الزام ہے کہ تیل کا جہاز آ گیا، وہ لنگز انداز ہو چکا ہے اور اس کو جان بوجھ کر برتھ نہیں کیا جا رہا تاکہ تاخیر کے ساتھ اس کی برتھ کی جا سکے اور جب نئی اور زیادہ قیمت کا اطلاق ہو تو پھر اس کی برتھ کی جائے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ ایک غیرقانونی فعل ہے لہٰذا اس کی بھی نشاندہی کرنی ہے کہ کس کے خلاف یہ کارروائی کی جائے ۔انہوں نے کہا تیل کی غیرقانونی فروخت میں جو بھی ملوث اس کا بھی اس رپورٹ میں احاطہ کیا گیا ہے اور اس کا بھی فارنزک کیا جائے اور مجرمانہ فعل کا پتہ لگانے کے بعد پوری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ذمے داران کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں گی اور وہ جیل جائیں گے ۔انہوں نے کہا فرانزک تحقیقات میں اس بات کا بھی پتہ چلانا ہے کہ وہ سرکاری لوگ کون تھے جنہوں نے معاونت کی لیکن جس نے مجرمانہ کارروائی میں معاونت کی اور اس کے شراکت دار بنے تو ان کی بھی نشاندہی کرنی ہے ۔انہوں نے کہا اس فیصلہ سازی میں پٹرولیم ڈویژن کے جو بھی لوگ ملوث ہیں، ان کی تفتیش کی جائے گی، ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا ان کی بھی تفتیش کی جائے گی جبکہ جہاز کی برتھ کے معاملے میں وزارت سمندری امور کے حکام ان فیصلوں کا براہ راست حصہ ہوتے ہیں تو ان کی بھی تفتیش کا کہا گیا ہے ۔اسد عمر نے کہا جب تک ایف آئی اے 90 دن میں فارنزک مکمل کرے گا، وزیر اعظم نے اس دورانیے کے لئے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر ان کو ہدایت کی ہے کہ وہ قلمدان سے مستعفی ہو جائیں اور اسی طریقے سے سیکرٹری پٹرولیم کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کا حکم دیا جائے گا۔انہوں نے کہا میں یہ بات واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں وزیراعظم کے معاون خصوصی یا سیکریٹری پٹرولیم سے متعلق کوئی غیرقانونی اقدام نظر آیا ہے لیکن وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کیونکہ پوری کڑی کی تفتیش ہونی ہے ، قوم کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان کی تحقیقات ہیں ،اس لئے فیصلہ کیا گیا تاکہ یہ شائبہ بھی نہ ہو کہ کوئی ان فیصلوں پر اثرانداز ہو گا۔92 نیوز کے مطابق ڈی جی آئل کوبھی تبدیل کیاجارہاہے ۔انہوں نے کہا دوسری چیز انتظامی کارروائی ہے جس کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ آپریشنل فیصلوں میں کمزوری، انتظامی عہدوں پر بیٹھے کچھ لوگوں کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے پاس ان عہدوں کے لئے درکار قابلیت نہیں تو وہ تمام آپریشنل فیصلے پٹرولیم ڈویژن کو دیکھنے کا کہا گیا ہے اور جلد از جلد ان فیصلوں کے حوالے سے وزیر اعظم کو رپورٹ کرے ۔وفاقی وزیر نے کہا اس کا تیسرا اور آخری پہلو یہ ہے کہ جس قانون کے تحت پٹرولیم کا سارا نظام چلتا ہے ، اس میں دو کلیدی کھلاڑی ہیں، ایک پٹرولیم ڈویژن ہے جو ایگزیکٹو برانچ کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا اوگرا ہے جو ریگولیٹر ہے ۔انہوں نے کہا جو قانون سازی کی گئی ، اس میں ابہام پیدا ہوا ہے کہ مختلف کارروائیوں میں اوگرا کی کیا ذمے داری ہے اور پٹرولیم ڈویژن کی کیا ذمے داری ہے ، اس ابہام کو ختم کرنے کے لئے ایک قانون بنایا جائے گا اور جو بھی ترامیم درکار ہیں، وہ کی جائیں گی۔انہوں نے کہا معیشت کونقصان پہنچانے والوں کے لئے بہت ہی کم سزائیں ہیں،جومافیا عوام کاپیسہ نکال رہا ہے ، وزیراعظم ان کوبالکل نہیں جانے دیں گے ،وزیراعظم کی طرف سے مافیا کوپیغام ہے کہ ان کاوقت ختم ہوگیا،وزیراعظم صرف بیان بازی کے بجائے آخری حد تک جاناچاہتے ہیں،ہم جب تک تکلیف برداشت نہیں کرینگے ، تبدیلی نہیں آئیگی۔