ایک ایسا کنواں جس میں پانی موجود نہ ہو کیا کسی پیاسے کی تشنگی کا مداوا کر سکتا ہے ؟ کیا خالی پٹرول پمپ سے کسی گاڑی میں ایندھن ڈالا جا سکتا ہے ؟ کیا بجلی کی عدم موجودگی میں آپ کے یو پی ایس کی بیٹری چارج ہو سکتی ہے ؟ کیا کسی خالی کھیت سے گندم کی کٹائی کی جا سکتی ہے ؟ کیا گنا مل میں لائے بغیر چینی بنائی جا سکتی ہے؟ کیا دودھ کے بغیر پہلوان دھی بنا کر بیچ سکتا ہے ؟ کیا خشک دریا سے جڑی کوئی نہر کھیتوں کو سراب کر سکتی ہے ؟ ان چند سوالوں کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں ایسے درجنوں سوال پیدا ہو چکے ہونگے جن کا جواب کلیتا نفی میں ہے تو اگلا سوال میں آپ کی خدمت میں یہ رکھتا ہوں کہ کوئی ایسی سیاسی و مذہبی قیادت جو خود جمہوریت کے اصول و ضوابط کا خون کر کے منصب قیادت پر فائز ہو ملک و قوم کو حقیقی جمہوری نظام دے سکتی ہے ؟؟ آپ جب بھی یہ سوال پاکستانی کے سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کے ہمنوا دانشوروں کے سامنے رکھیں تو ان کا جواب اگر مگر سے شروع ہو کر چونکہ اور چنانچہ پر ختم ہو گا۔ شاید ہی کوئی سچی اور کھری بات کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جس کو جمہوریت کا نام دیدیا گیا ہے اس کا حقیقی جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے ہاں جمہوریت کیا ہے اس کی بہت ہی رعایتی تشریح بھی صرف سول سپریمیسی ہے یعنی پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ریاستی امور میں عمل دخل ختم ہو کر تمام معاملات میں سول اشرافیہ کا خود مختار ہو جانا۔ یہ ہی وہ نظریہ اور سوچ ہے جس نے پاکستان کے تمام لبرل دانشوروں اور نام نہاد جمہوری لیڈروں کو تمام اختلافات بالا ء طاق رکھتے ہوئے آج کل متحد کیا ہوا ہے۔ میں کبھی بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ملک پر سیاسی تسلط کے حق میں نہیں رہا لیکن اگر موجودہ نظام میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل مکمل ختم ہواور معاملات میں سول اشرافیہ مکمل آزاد ہو جائے تو پھر اس اشرافیہ پر مشتمل پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاستدان، عدالتوں میں فائز محترم ججز اور سرکاری دفاتر میں موجود مفاد پرست بیوروکریسی اس ملک کا کیا حال کرے گی اس کا تصور بھی تباہ کن ہے۔ پاکستان کے مسائل کا ایک حل ایسا انقلاب ہو سکتا ہے جو حقیقی معنوں میں عوامی انقلاب ہو ایسا انقلاب اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک قوم کی اکثریت کسی ایک پرچم تلے جمع ہو کر اس انقلاب کے لئے کوشاں نہ ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مذہب لسانیت علاقائیت ذات اور برادری کی بنیاد پر اتنی تقسیم در تقسیم ہوچکی ہے کہ قوم کا کسی ایک پرچم تلے متحد ہو کر سیاسی جدوجہدکے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ مزید برآں انقلاب کے نام پر اس قوم کے ساتھ اتنے دھوکے ہو چکے ہیں کہ عوام اب کسی آواز پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ لہذا مسقبل قریب یا بعید میں کسی ایسے عوامی انقلاب کی امید رکھنا ایک سہانا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ انقلاب کا دوسرا راستہ فوجی انقلاب ہو سکتا ہے پاکستان میں اس کے تین تجربات کئے گئے۔اگرچہ فوجی ادوار میں بہت سے اچھے کام بھی ہوئے لیکن ہر فوجی انقلاب کے بعد جب دوبارہ سول نظام آیا تو ہر دفعہ اس کے نتیجے میں کرپٹ سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ اور نسل قوم پر مسلط ہوئی -فوجی حکومت کو سیاسی حمایت کے لئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے اس کی ایک جھلک ابھی براڈشیٹ سیکنڈل میں سامنے آئی ہے- ہر فوجی دور اقتدار کا اختتام ایک بڑے ملکی و قومی بحران کی صورت میں نکلا۔ اس کی وجوھات ایک الگ موضوع ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ چوتھی دفعہ ایسی مہم جوئی کے لئے نہ فوج تیار ہے اور نہ ہی اس کے نتائج پہلے 3 تجربات سے مختلف نکلنے کا کوئی امکان ہے۔ رہ سہہ کر ملک میں حالات کی بہتری کا ایک ہی راستہ راہ جاتا ہے وہ ہے آئین کے مطابق بتدریج تبدیلی کا۔ اگرچہ یہ ایک لمبا راستہ ہے لیکن انسان کی 5 ہزار سالہ معلوم تاریخ بھی یہ ہی بتاتی ہے کہ بتدریج آنے والا انقلاب ہی دیر پا اور مستحکم ہوتا ہے۔ لیکن آئین کے تحت یہ بتدریج بہتری بھی کچھ امور سے مشروط ہے۔۔اس میں پہلی شرط عوام میں تعلیم کا فروغ اور شعور کی بیداری ہے۔ دوسری شرط قوم کی اخلاقی اور تہذیبی تربیت ہے اور تیسری شرط سیاست میں خاندانی تسلط کا بتدریج خاتمہ ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والے اساتذہ اور دین کا حقیقی درد رکھنے والے علماء ہی پہلی دو شرائط کے حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جبکہ خاندانی سیاست کے اثرو نفوذ کے خاتمے کے لئے نظریاتی سیاست کا توانا ہونا لازم ہے جس کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جگہ ملک کے سیاسی منظر نامہ پر نئی سیاسی جماعتوں ابھرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ان دو جماعتوں پر خاندانوں کی گرفت اتنی مضبوط ہے اگر یہ جماعتیں ملکی منظر نامے پر لیڈ نگ رول میں رہیں گی تو ان پر شریف اور زرداری خاندانوں کا تسلط حاوی رہے گا نتیجتا ملکی سیاست خاندانوں کے شکنجے میں ہی جکڑی رہے گی۔ محترم عمران خان کو اللہ تعالی نے ایک موقع دیا ہے اگرچہ ان کی حکومت کی کارکردگی بہت سے حوالوں سے مایوس کن ہے لیکن ابھی بھی ان کے پاس اڑھائی سال ہیں۔ اگر وہ شریف اور زرداری خاندانوں کے لئے این آر او کے راستے میں حسب دعوی ڈٹ کر کھڑے رہتے ہیں اور ان کی کرپشن کے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچا نے میںکامیاب ہو جاتے ہیں تو ملک میں یقینا حقیقی عوامی جمہوری اور نظریاتی سیاست کے راستے کھل سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر وہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم لا کر اور اساتذہ کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقینا ہمارے تعلیمی ادارے اور ان کے اساتذہ قوم کی تعمیر میں کلیدی کردار اس کر سکتے ہیں۔ وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا اقبال کی کشت ویراں کو سیراب کرنے کیلئے چشمہ نے تو جلد یا بدیر نکلنا ہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کس کی ایڑیوں کی رگڑ کو وہ اخلاص و تسلسل نصیب ہوتا ہے جو چشمے کے ظہور کے لئے لازم ہے۔ ٭٭٭٭٭