تجزیہ:سید انور محمود کوئی انسان اپنی تقدیر تراش سکتا نہ ہی یہ ایسی چیز ہے کہ اس سے لڑا جا سکے ،تقدیر لوگوں کو تصور سے ماورا منزلوں پہ لے جاتی ہے ، ناقابل تصور موڑ پہ پہنچا دیتی ہے ، تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ،موجودہ پاکستان بھی ایسی ہی ایک مثال ہے ۔ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے لئے ایک دشوار مہم کوویڈ 19کی صورت میں سامنے آ کھڑی ہوئی، اس نے سیاست کا پورا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا،کورونا کے ساتھ بہت بڑے بڑے چیلنجز جڑے ہوئے ہیں لیکن شاندار مواقع کی بھی کمی نہیں، یہ صورتحال عمران خان کے تئیں کس شکل میں رونمائی کرے گی ،اس کا پتہ چلانے کیلئے پچاس سالہ تاریخ موجود ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا وفادار سمجھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی وہ ان کے ’’بروٹس‘‘ ثابت ہوئے ۔ عالمی برادری نے جنرل کے اقتدار پر قبضہ کو ناپسند کیا اور وہ ان سے تعلقات رکھنا نہیں چاہتی تھی، کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں ایک نوجوان پاکستانی اتاشی کے طور پر ان دنوں میرے لئے دو سب سے بڑے چیلنج تھے کہ میں کینیڈین میڈیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کروں ،ایک یہ کہ جنرل ضیا بھٹو قتل کیس میں کوئی مداخلت نہیں کر رہے اور دوسرے یہ کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف اور صرف پرامن مقاصد کیلئے ہے ، ان دونوں باتوں کایقین دلانا مشکل تھا اور جب سوویت یونین کی افواج کابل میں آ گئیں اور ضیاء کیلئے حالات میں تبدیلی ہوئی تو بھٹو کا عدالتی قتل اور بھٹو کو پھانسی سب بھلادی گئی ۔ امریکی پاکستان کی مدد کیلئے دوڑے آئے ،حالات کی تبدیلی کے یہی وہ مواقع تھے جس کے وہ آرزو مند تھے کہ امریکی اور مغربی ممالک انہیں تسلیم کریں۔ انہوں نے امریکہ کی طرف سے چند سو ملین ڈالر کی امداد مسترد کر دی، انہوں نے قریباً ایک عشرہ تک پاکستان پر حکومت کی، پھر ایک عشرہ بعد بھی جی ایچ کیو میں جنرل پرویز مشرف کے رفقائے کار نے ان کی سری لنکا سے واپسی کے دوران ان کی برطرفی کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے حکومت پر قبضہ کر لیا اور نواز شریف کو حراست میں لے لیا، مشرف حکومت کے نئے سربراہ بن گئے لیکن امریکہ نے پہلے کی طرح حکومت پر قبضہ کو مسترد کر دیا اور امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت کے دورہ سے واپسی پر اسلام آباد میں سٹاپ اوور کیا اور حکومت اور پاکستانیوں کو براہ راست ٹیلی ویژن خطاب کے ذریعے جمہوریت کی خوبیوں پر لیکچر دیا۔ مشرف سے اپنے اظہار ناراضگی کے طور پر کلنٹن نے ان کی مہمان نوازی قبول نہیں کی اور سرعام ان سے مصافحہ کرنا گوارہ نہیں کیا ۔ایک سال بعد 9/11کا واقعہ رونما ہوا اور پاکستان ایک اور بھنور میں پھنس گیا ۔راتوں رات مشرف سب سے زیادہ محبوب سربراہ حکومت بن گئے ،جمہوریت کی سب خوبیاں بھلا دی گئیں اور طالبان کے خلاف لڑنے کے لئے سب ان کی مدد کے طلب گار بن گئے ۔ مشرف نے چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس لائے جانے تک بلا خوف و خطر 8سال حکومت کی۔وزیر اعظم عمران خان بظاہرمشکل میں نظر آرہے تھے ‘ حالات بھی ان کے لئے موزوں نہیں تھے اور پاکستان میں یہ باتیں ڈرائنگ روم ٹاپک بنی ہوئی تھیں کہ ان کی حکومت کتنی دیر برقرار رہے گی اور جب سے کورونا وائرس کا خوف در آیا ، اس سے پورا قومی منظر نامہ بدل گیا ہے ‘ کیا یہی تقدیر ‘ یہی قسمت نہیں ہے ؟ اور آپ تقدیر سے نہیں لڑ سکتے ۔