مکرمی! وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مْلک بھر کے تعلیمی ادارے ستمبر کے پہلے ہفتے میں کھولنے کی تجویز سے اتفاق کیا ہے-اس فیصلے کی حتمی منظوری این سی او سی کے اجلاس میں بھی دے دی گئی ہے-دْنیا کے کئی ممالک میں اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ ایک دن میں 30،40 فیصد طلباء بلائے جاتے ہیں اور باقی طلباء چھٹی پر ہوتے ہیں،پھر اگلے دِن اتنی ہی تعداد میں طلباء بْلا لئے جاتے ہیں اور دوسروں کو چھٹی دے دی جاتی ہے۔ یوں سماجی فاصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے اس طرح عملاً ہر بچہ ہفتے میں دو تین دن سے زیادہ سکول نہیں جا رہا- یہ اْن ممالک میں ہو رہا ہے جو کورونا کی قیامت خیزیوں سے گذر کر اب بہتر حالت میں ہیں-تقریباً آٹھ ماہ کی طویل بندش کے باعث لائق اورمحنتی طلبا کا تعلیمی ہرج ہوچکا ہے جبکہ ایک عام طالب علم کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوتا جارہا ہے-علاوہ ازیں مسلسل بندش کی وجہ سے نہ صرف پرائیوٹ تعلیمی ادارے مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں بلکہ یہ ادارے فنڈز کی کمی کے باعث ملازمین کی چھانٹی پرمجبورہوچکے ہیں-سرکاری جامعات بھی مالی مشکلات کا شکارہوچکی ہیں جس کی مثال یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہور اورپشاوریونیورسٹی ہیں- حکومت سے مطالبہ ہے کہ 15 ستمبرکی بجائے عیدالاضحیٰ کی تعطیلات کے فوری بعد تعلیمی اداروں کو درس وتدریس کا سلسلہ شروع کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ (جمشید عالم صدّیقی‘ لاہور)