مکرمی !گوجرہ میںچوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہوچکا ہے لوگ لٹ رہے ہیں اور مقامی پولیس تماشائی بنی ہوئی ہے مقامی پولیس کاکام مجرموںکوپکڑنے اور لٹنے والوں کی داد رسی کرنے کی بجائے مقدمات کودرج کرنے سے ہچکچاہت کا مظاہرہ کیا جاتاہے۔ لٹنے والاجو سائل تھانوں کے چکر لگانے اور کٹھن مراحل طے کر کے کسی واسطے وسیلے سے مقدمہ درج کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تو وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کا لٹنے والا تمام مال روپیہ پیسہ واپس مل جائے گا مگر اس کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے جب مجرم پکڑنے کے بعد اس کو اکثراوقات معمولی یانصف سے بھی کم مالیت کی واپسی ملتی ہے جس میں سے بیشتررقم کے اخراجات تھانہ سے سپردداری لینے وکیلوں اور تھانہ کچہریوں میں انصاف کے حصول اور مقدمات کی طوالت میں اپنی جان چھڑوانے میںادا ہوجاتے ہیں اگرچہ ان باتوں کا کوئی چشم دیدگواہ نہیں ہے مگر ایک ڈکیتی کی ریکوری کا راقم کو بھی علم ہے جس میںایک اہلکا ر نے ریکوری رقم سے اپنا کچھ حصہ مدعی سے یہ کہہ کر طلب کیا تھا کہ اس نے بڑی محنت سے ڈاکو پکڑے ہیں جہاں جان ومال کے رکھوالے رشوت لینے میں مدعی اور ملزم کا فرق ختم کر چکے ہوں۔ وہاں قاضی سے انصاف کی توقع رکھنا فضول ہے اس ملک میں لٹنے والے مقدمات کے اندراج اور حصول انصاف میں رُل جاتے ہیں حکمرانوں سے اپیل ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ اور سستا انصاف مہیا کریں(زاہد روٗف کمبوہ، گوجرہ)