مکرمی! دنیا میں ہر انسان آزاد رہنا چاہتا ہے اس کی آزادی پر روک اْس کو گوارا نہیں ہوتی۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا منشا یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کی اجازت ہے، البتہ دوسرے کی تذلیل وکردار کشی کی اور تہمتیں لگا کر نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق شامل ہے، اسلام ہر انسان کو یہ حق عطا کرتا ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ جہاں تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے ہی تذلیل کی سرحد شروع بھی ہو جاتی ہے اور کسی کی تذلیل کرنا ہر معاشرے میں برا عمل ہے بلا حدود استعمال صرف گستاخیوں کا کباڑہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اخلاقی گراوٹ اور ناقابلیت کا ایسا مقام ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت سے لاعلم ہوجاتے ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ بیجا تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کرجاتے ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر سے ، شرانگیز بیانات سے انسانوں کی، عزت کو داغدارکرتے ہیں، کسی کی توہین و تحقیر کرتے ہیں۔ مذہب، مسلک ، فرقے اورکسی محترم شخصیت کے بارے میں ناشائستہ گفتگو کو رائے کی آزادی سمجھتے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے؛ تاکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہ عبرت بنے اور آزادی اظہار رائے کو سب لوگ حدود میں رہ کر استعمال کریں۔ ( محمد نفیس دانش۔شیخوپورہ)