مکرمی! کسی بھی ملک کی ترقی، خوش حالی اور بہبودی میں جس بنیادی ڈھانچے (یعنی انفراسٹرکچر) کی ضرورت ہوتی ہے ان میں شاہراوں، عمارتوں، پلوں اور ذرائع آمدورفت کے ساتھ ساتھ ڈیمز (DAMS) کا کردار نہایت اہم ہے۔ بدقسمتی سے ہم ڈیمز کی تعمیر میں خوش قسمت نہیں رہے۔ ماسک، منگلا اور تربیلہ ڈیمز کے بعد کوئی ایسا قابل قدر ڈیم ہمیں نصیب نہ ہوا جس سے ہم بجلی کی ترسیل کے علاوہ پانی کے ذخائر کا بندوبست کر لیتے اور شدید بارشوں کے دوران میں ناگہانی سیلابوں پر بھی کنٹرول کر لیتے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کن سازشوں کا شکار ہوئی اس پر بحث کے لئے کئی کتب درکار ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ہماری چھوٹی (یعنی گھریلو) صنعت کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایا۔ ٹیوب ویلز کے بند ہونے سے کسانوں کی پانی کی ضروریات پوری نہ ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کمرشل اور گھریلو صارفین کی زندگی بھی اجیرن ہو گئی اور یوں حکومت کو عوام کے بے پناہ غصے کا سامنا کرنا پڑا شدید بارشوں میں چونکہ ہمارے پاس پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعداد اور صلاحیت بہت کم ہے اس لئے اکثر مون سون کے موسم میں ہمارا ازلی دشمن بھارت بغیر کسی اطلاع کے ہمارے دریاوں میں پانی کی کثیر مقدار چھوڑ دیتا ہے جو سیلاب اور تباہی کا باعث بنتی ہے۔ اس سال طوفانی بارشوں کی وجہ سے پنجاب کو سیلاب کی جن تباہ کاریوں کا خطرہ تھا اسے منگلا ڈیم میں پانی کے ذخیرہ کرنے کی استطاعت نے دریائے جہلم کے پانی کو روک کر بچایا۔ اس طرح ڈیمز اپنی جھیلوں میں پانی کو سٹور کر کے دریاوں کو سیلابی صورت حال سے روکتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہی ذخیرہ شدہ پانی سارا سال نہری نظام کی وجہ سے ہمارے کسانوں کو دست باب رہتا ہے اور ان کی خوش حالی کا باعث بنتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ دوسرے ڈیمز کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کر دیں۔ اس کا بلیو پرنٹ تو 1950ء کی دہائی سے تیار ہے۔ متعلقہ سرکاری محکموں اور واپڈا کو اس کی تعمیر میں میز دیر نہیں کرنی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کو ایک خوش حال اور ترقی یافتہ ملک دینے کے قابل نہ رہیں۔ (محمد اسلم چوہدری ‘لاہور)