ملک میں عدالتیں کام کر رہی ہیں اور احتساب کا ادارہ بھی، لیکن کوئی پوچھے کہ عدل کا بول بالا ہے تو جواب ندارد۔ چلئے معاملے کو سمجھنے کے لیے سوال بدل دیتے ہیں: کیا ریاست ظلم کا راستہ روک پارہی ہے؟ بھلا ایک جاگیردارانہ سماج میں بھی ظلم کے آگے بند کوئی باندھ سکتا ہے۔ جمہوریت کے نعروں کی گونج میں اٹھے اس سوال کا جواب ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے سیاست بند گلی میں پھنس گئی ہے۔ اونچ نیچ کے شکار معاشرے میں وسائل کی تقسیم، ظاہر ہے، فطری نہیں۔ کسی طاقت نے لوگوں کے نصیب لکھے ۔ وہ طاقت بدیسی تھی، یہاں سے جا چکی ہے، لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ڈائن مر گئی لیکن اپنے دانت پیچھے چھوڑ گئی ، ہمارے ہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ سا مراجی طاقت کے والی وارثوں نے اسکے دیے گئے طبقاتی نظام کو گلے سے لگا کے رکھا ہواہے ، ملک ٹوٹا کوئی فرق نہیں پڑا ، ریاست کا مالیاتی اور انتظامی نظام مفلوج ہوکے رہ گیا ہے ، پھر بھی کوئی پرواہ نہیں۔ اشرافیہ جو پہلے مربعوں کی آمدن پر گزارہ کر تی تھی ، اب یہ صنعتکاری سے ہوتی ہوئی ساہوکاری تک پہنچ گئی ہے اور جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ایوان اقتدار پر قابض ہے۔ ستم ظریفی ہی ہے نا کہ عوام الناس کو جوتیوں کی نوک پر رکھنے والی اشرافیہ کے کندھوں پر اسے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی ہے۔ یعنی بھیڑ کی رکھوالی بھیڑیے کے ذمہ ڈال دی گئی ہے۔ جمہوریت اور جمہور کی نگہداشت جتنی نیکی ہے اس کا بھانڈا کورونا نے پھوڑ دیا ہے۔ انیسویں صدی میں انگریزوں کے دیے گئے معاشی اور سیاسی نظام کی آبیاری ہوئی تو اس نے پانچ دریائوں اور وسیع میدانوں کے حامل خطے میں آباد لوگوں کے منہ سے نوالا تک چھین لیا ۔ بھوک اور بیماری کے بوجھ تلے دبے لوگوں کو ریاست سہارا دینا بھی چاہے تو بے بس اور مجبور ہے۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے ہی لالے پڑے ہوں تو کون سکول جاتا ہے ، کس نے کہیں سے ہنر سیکھنا ہے۔ اشرافیہ سیاست کر تی ہے بلکہ اس پر قابض ہے تو کون ہے جو کوئی راستہ نکالے ، اس بجھارت کا جواب دے کہ عوام جوٹیکس دیتے ہیں ، وہ تو بیرونی قرضوں کی مد میں چلا جاتا ہے، انہیں غذائی تحفظ، صاف پانی ، صحت اور تعلیم کہاں سے دی جائے؟ چادر دیکھ کار پائوں پھیلانے کی بات کی جائے تو کس کی دم پر پائوں رکھا آجاتا ہے ؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات بدلے۔ جس زراعت کے اربوں کی لاگت سے ڈیم بنائے جارہے ہیں، وہ اپنا بوجھ تک نہیں سہار پار رہی۔ملکی آمدنی میں اس کا حصہ بیس فیصد تک نیچے گرگیا ہے۔ مشینی انقلاب کی وجہ سے لوگوں کو روزگار بھی نہیں دے پاتی۔ سبسڈیاں بڑے زمینداروں کی جیب میں چلی جاتی ہیں، چھوٹا کسان جو اپنے خاندان کو پالنے کے لیے زراعت کر تا ہے ، اسکے لیے زراعت خسارے کا سودہ ہے کہ نہ اسے نہری پانی ملتا ہے اور نہ بیماریوں سے مقابلہ کرنے والے صحت مند بیج۔ بجلی اور ڈیزل مہنگا ہے، ٹیوب ویل کا مہنگا پانی ہی ان کا منافع کھا جاتا ہے۔ زراعت کے ستائے ، یا یوں کہہ لیں کہ نکالے، لوگ ملکی شاہراہوں پر کچی بستیاں بسا ئے ہوئے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دریا وں کے کنارے صدیوں سے آباد تھے، دریائوں کا پانی ڈیموں اور بیراجوں میں سمٹتا، شرماتا دور دراز زمینوں کی آبیاری کر رہاہے جبکہ انکے کناروں سے چمٹی انسانی آبادی نقل مکانی کر گئی ہے۔ کارخانوں اور ملوں میں یہ لوگ مزدوری کرتے ہیں لیکن انہیں کسی قسم کا کوئی تحفظ نہیں۔ پہلے تو مزدوری کم ہے اوپر سے کام سے نکالے جانے کا خوف۔ ان کی بسائی گئی کچی بستیوں میں صحت ، صفائی، تعلیم اور صاف پانی کا کوئی انتظام نہیں۔ چھوٹا کسان اور مزدور اور، اس ملک کی اکثریت، بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ عوام اور ریاست کوئی الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اگراشرافیہ عوام کے خلاف صف آرا ئی ہوگئی ہے تو یقینی طور پر ریاست کے مفادات بھی خطرے میں پڑے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کی گھمبیر صورتحال اور بنیادی حقوق کی فراہمی میں مسلسل کوتاہی اب ظلم کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ریاست اپنی بقا کی خاطر عدل کا راستہ اختیار کرے۔ با اختیار مقامی حکومتیں اور عوام کو وسائل اور اختیارات کی منتقلی نہ صرف بنیادی حقوق کی فراہمی کا سب سے آسان اور آ زمودہ راستہ ہے بلکہ اس میں ملک کو لاحق دیرینہ امراض ( فتنہ ، انتہا پسندی اور دہشت گردی ) کا شافی علاج بھی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو اس بات کا ادراک ہے ، بات بھی کرتے ہیں، لیکن کیا ہوا ہے؟ کہتے ہیں تین سال بیت گئے انہیں ملکی معاملات کو سمجھنے میں۔ اب اگر تین سالوں میں آپ سے یہی ہو پایا ہے اور خسارے کے سودے ہی کرتے رہت تو اگلی حکمت عملی تو واضح کریں۔ تبدیلی کا مختصر ترین راستہ خود مختار حکومتوں کو آئین کی روح کے عین مطابق قائم کرنا ہے۔ اس ا نتظام کے بغیر کہ ملکی وسائل لوگوں کی دہلیز تک پہنچیں مشکل ہے۔ وسائل صوبوں کے ہاتھ میں دینااور دیتے رہنا خود آئین کی خلاف ورزی ہے، یعنی وفاق بھی اسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے جسکا کہ صوبے اور وہاں پر قائم منتخب حکومتیں۔ نچلی سطح تک وسائل اور اختیارات کی منتقلی صوبائی خود مختار ی سے مشروط تھی۔ اصولی طور پر اگر یہ نہیں تو وہ بھی نہیں والا معاملہ ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ اگر چہ راضی ہیں لیکن اس کارخیر کی انجام دہی میں غفلت کررہے ہیں، بلوچستان کی حکومت نے حامی بھر لی ہے تو فرض کی ادائیگی میں دیر کس بات کی۔ جہاں تک سندھ کا معاملہ ہے تو جہاں نیت صاف ہو بیڑے پار ہو ہی جاتے ہیں۔ آئین کا معاملہ ہے ، اسے طبقہ جاتی مفادات پر کب تک قربان کیا جاسکتا ہے؟ ہِیں ظلم توں کر بس کڈاہیں، رلڑے فرید دے وس کڈاہیں ہس رس اتے دل کھس کڈاہیں، جیون دے ڈینہہ ڈو، چار وے! (خواجہ فرید)