مکرمی !مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف جب سے پاکستان تشریف لائے ہیں تب سے قومی سیاست میں کافی متحرک نظر آ رہے ہیں پارٹی سربراہان اورملک کی سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ مستقبل کے الیکشن کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دے رہے ہیں ایک جانب میاں شہباز شریف بار بار بیان دے رہے ہیں کہ ہم اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لیں گے لیکن دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتوں سے سیٹوں پر مزاکرات بھی ہو رہے ہیں شہباز شریف بارہا کہ چکے ہیں کہ عوام الیکشن میں ہمیں بھاری اکثریت دیں تاکہ پاکستان کو معاشی خود انحصاری ملے اور عوام کو مہنگائی سے چھٹکارا مل سکے نیز متفقہ معاشی منشور ہی پاکستان کو موجودہ مسائل کی دلدل سے باہر نکال سکتا ہے اور مسلم لیگ نون اپنے قائد میاں نواز شریف کی قیادت میں قومی ترقی کے معاشی منشور کو پروان چڑھائے گی ایک جانب اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ اور دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتوں سے سیٹوں کی بندر بانٹ ایم کیو ایم سے سندھ میں اتحاد ہو چکا ہے مولانا فضل الرحمن سے بھی معاملات طے پا گئی ہیں اور کل ہی چوہدری شجاعت حسین سے بھی 14 سال بعد ان کی رہائش گاہ پر میاں نواز شریف کی تقریباً 5 سیٹوں پر بات ہو چکی ہے یہ بات واضح ہے کہ آنے والے الیکشن میں واضح اکثریت کسی بھی پارٹی کو ملنا مشکل نظر آ رہا ہے غیر جانبدار تجزیہ نگار بھی یہی کہ رہے ہیں اور امید ہے کہ اگلی حکومت بھی پی ڈی ایم طرز پر بنے گی جس میں تقریباً سبھی پارٹیاں شامل ہوں گی اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس وقت نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں جو تلخی نظر آ رہی ہے وہ صرف الیکشن تک ہے الیکشن کے بعد جب حکومت تشکیل پائے گی تو پیپلز پارٹی بھی اس کا حصہ ہو گی ۔ بظاہر تو ہوا نون لیگ کی چل رہی ہے لیکن حالات اتنے بھی نون لیگ کے لیے سازگار نہیں تحریک انصاف کے 20 منحرف ارکان کو بھی نون لیگ نے ٹکٹ دینے ہیں اس کے ساتھ مختلف پارٹیوں کے ساتھ سیٹوں پر بات چیت کے نتیجے میں ان کے مقابل بھی امیدوار کھڑے نہیں کرنے ان دونوں عوامل نے نون لیگ کو مشکلات میں ڈال دیا ہے ایک دوسرے پر تنقید اور تیروں کی بارش شروع ہو چکی ہے دانیال عزیز اور احسن اقبال کے بیانات سب کے سامنے ہے رانا ثناء اللہ اور سعد رفیق کے بیانات بھی کافی کچھ ظاہر کر رہے ہیں ملک کے بیشتر حلقوں میں نون لیگ کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے ٹکٹ نہ ملنے والے لوگ پارٹی بھی چھوڑ جائیں گے ایسے میں مستقبل کی حکومت بنانے کے دعویداروں کے لیے کڑا امتحان ہو گا۔ ( ندیم خان)