شکر ہے کہ اس میں ابھی تک پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کا نام شامل نہیں ہوا۔ ان کے مطابق ایک سازش کے تحت ہندو اکثریتی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اب انکو کون بتائے کہ اگربھارت میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوئوں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔ اس نئے’’ لو جہاد‘‘ کے نعرہ کے نام پر ہندو تنظیموں نیز کئی جگہوں پر مقامی انتظامیہ نے اتر پردیش، راجستھان، کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن کرکے رکھ دی ہیں۔اگر ان کو دہشت گردانہ واقعات کے ساتھ جوڑنے کے لیے تار نہ مل رہے ہوں ، تو لو‘ جہاد کے نام پر یا کسی ہندو لڑکی کے ساتھ آنکھیں لڑانے کی پاداش میں ہی انہیں نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے۔ 2013میں دہلی سے صرف 100کلومیٹر دور مظفر نگرکے خونیں فساد اسی طرح کی افواہ سے شروع ہوئے تھے۔ ان میں تقریبا 60 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ مغربی اتر پردیش اور ہریانہ میں ہندو جاٹوں کا سماجی تانا بانا خاصا پیچیدہ ہے۔ ایک تو ان علاقوں میں جنسی تناسب سب سے کم ہے، دوسری طرف یہ ایک گوت اور ایک ہی گائوں میں شادی نہیں کرتے۔ چچا زاد، ماموں زاد نیز گائوںکی تمام لڑکیوں کو بہن کا درجہ دیا جاتا ہے، اور اس روایت کو اس حد تک سختی کے ساتھ نبھایا جاتا ہے، کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کئی موقعوں پر گائوں کی جاتی پنچایت یا ان کے اعزا و اقارب ہی موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ان علاقوں میں کئی موقعوں پر لڑکیاںگائوں کے مسلم یا نچلی ذات کے ہندو دلت نوجوانوں کو دل دے بیٹھتی ہیں۔ کیوںکہ صرف یہی دو گروہ بھائیوں کے زمرہ میں نہیں آتے ہیں۔ مگر اس علاقے میں بھی ابھی تک کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا ہے، جہاں کسی ہندو لڑکی نے باضابط کسی مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کی ہو یا مذہب تبدیل کیا ہو۔ چند برس قبل تک اسرائیل میں بھی اسرائیلی عربوں (یہ اصطلاح ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جن کے پاس اسرائیلی شہریت ہے اور مغربی کنارہ اور غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے برعکس اسرائیل کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں) کو بھی یہودی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے آپ کو یہودی جتلا کر ان کے ساتھ شادیا ں کروانے کے الزام لگائے جاتے تھے۔اس پورے پروپیگنڈے کا ماخذ2010 میں عدالت میں ایک یہودی لڑکی کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ تھا، جس میں اس نے اپنی شادی منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی کیونکہ اس کے شوہر نے اپنی شناخت چھپا کر اور اپنے آپ کو یہودی جتلا کر اس کے ساتھ شادی کی تھی۔بعد میں اس کو پتہ چلا تھا کہ وہ ایک عرب نوجوان تھا۔اس واقعہ کے نتیجے میںتل ابیب، عسقلان، بحرلوط اور دیگر تفریحی ساحلی مقامات پر اسرائیلی عرب نوجوانوں کا داخلہ بند کردیاگیا تھا، تاکہ غسل آفتابی کرتے ہوئے نیم برہنہ یہودی خواتین ان کی التفات کا شکار نہ ہوجائیں۔دوسری عالمی جنگ سے پہلے کچھ اسی طرح کے حربے نازی جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اپنائے ، تاکہ ملک گیر سطح پر ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان کھڑا کیا جائے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہٹلر نے اس پراپیگنڈا کو عام کرنے میں خاصی دلچسپی دکھائی، کہ یہودی نوجوان ایک پلاننگ کے تحت جرمن خواتین کی آبرو کے درپے ہیں، تاکہ بقول ہٹلر اعلیٰ جرمن آرین نسل کو آلودہ کیا جائے۔ ایڈولف ہٹلر اپنی خود نوشت سوانح حیات مین کامپ (Mein Kampf ( میں رقم طراز ہیں: ''چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے کالے بالوں والے یہودی نوجوان، جرمن لڑکیوں کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ، تاکہ ان کے خون کو گندا کریں اور ان سے ان کی نسل چھین لیں۔‘‘ بالکل اسی طرح کا کھیل اب بھارت میں کھیلا جا رہا ہے۔حیر ت یہ ہے کہ ''لو جہاد‘‘ کا یہ مفروضہ2006ء میں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے ترقی یافتہ صوبہ کیرالا سے شروع ہوا، اور بعد میں یہ وبا پڑوسی صوبہ کرناٹک تک پہنچی۔حتیٰ کہ 2009ء میں کرناٹک کی عدالت عالیہ نے دونوں صوبوں کی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ پولیس نے بتایا کہ محبت کا جھانسہ دے کر مسلمان بنانے کا کو ئی واقعہ ان کی جانکاری میں نہیں؛ تاہم 25 جون2014ء کو وزیراعلیٰ اومن چاندی نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ان کے صوبہ میں 2006ء اور 2014ء کے درمیان 2667 ہندو خواتین نے اسلام قبول کیا ہے، مگر ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پولیس تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے، کہ ان خواتین کو کسی نے زبردستی یا لالچ دے کر تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا۔ ان میں سے اکثر خواتین نے یہ بتایا کہ وہ ہندو مذہب کے ذات پات کے بندھنوں سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں‘ یا پھر شادی کے لیے ان کی اپنی ذات یا معاشی سطح کے ہندو لڑکوں نے انکار کردیا تھا۔ چونکہ رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن جیسے متنازعہ امور پر عمل درآمد ہوچکا ہے، ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو اعلیٰ ذاتوں کی نمائندہ ہیںکو مسلمانوں کو ہدف بنانے کیلئے ایک اور ایشو کی ضرورت ہے، جس سے اکثریتی آبادی کی توجہ بنیادی ایشوز سے ہٹایا جائے اور منافرت آمیز ماحول گرم رکھ کر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول قائم رکھا جائے۔ مظلوم اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی سماجی بیداری نے ان کی فکر مندی کو دو چند کردیا ہے جو اپنے سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے منظم ہو رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے پسماندہ طبقات اور دلتوں کو نشانہ بنانے کی جرأت نہیں کر سکتے ہیں۔ تاہم انتہاپسند ہندو تنظیمیں مسلمانوںکو نرم چارا تصور کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے لیے بہتر تھا کہ ہندو معاشرہ کی معاشرتی خرابیوں کی طرف توجہ د یتیں، جن کے سبب ہندو خاندانوں کی عائلی زندگیاں عذاب بن جاتی ہیں۔ ایسے ایسے سماجی بندھن اور قانونی شقیں ہیں کہ نہ آسانی سے طلاق لے سکتے ہیں نہ کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اس کی بنیاد پر سیاسی مفادات پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ لوجہاد کا یہ نعرہ مودی اور بی جے پی کے لیے جگ ہنسائی کا موضوع بھی بن گیا۔ بی جے پی کے چوٹی کے مسلم رہنمائوں شاہنواز حسین ، مختار عباس نقوی کی بیویاں ہندو ہیں، ایک اور لیڈر مرحوم سکندر بخت کی بیوی بھی ہندو تھی۔ پارٹی کے ایک اور سخت گیر لیڈر سبرامینیم سوامی کی صاحبزادی نامور صحافی سہاسنی حیدر نے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر کے بیٹے کے ساتھ شادی کی ہے۔ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی اہلیہ سکھ تھی ان کی ہمشیرہ سارہ ، کانگریسی لیڈر سچن پائلٹ سے بیاہی ہے۔ بھارت کے ممتاز فلمی اداکاروں شاہ رخ خان اور عامر خان نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہیں۔کیا یہ سبھی لوجہاد کے مرتکب ہوئے ہیں؟ بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت میں مسلمان خود کو اس شر و فساد کی سیاست سے محفوظ رکھیں۔ جو نوجوان غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں، غیر مذہب کی خواتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ کہیں ان کی حرکتوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا نہ پڑے۔ کیوںکہ آثار و قرائن بتا رہے ہیں، کہ ہندو انتہا پسندوںکا سازشی ٹولہ اس بہانے سے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش کر رہا ہے۔