ہرسال ماہ اگست مجھے میری ہجرت کی کہانی یاد دلاتا ہے جو اپنے اندراس قدر غم وستم ،کسک ودرداور تلخ ترین لمحات سموئے ہوئے ہے۔ اخبارکے ایک مختصر سے کالم میں جن کا احاطہ ممکن نہیں ۔ اپنے آبائی گھر اورجائے پیدائش سے جدائی کا دکھ انسان کو اندرسے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اپنوں کی جدائی کا کرب سہنا ایک ایسا روگ اورانتہائی تکلیف دہ امرہوتا ہے کہ برس ہابرس گذر بھی جائیں تو بھی دل کولگے زخم اورروح کے گھائومندمل نہیں ہوتے اورپھر یاد ماضی کب انسان کا پیچھا چھوڑتی ہیں۔ میں نے ہجرت کا یہ کرب اپنی رگ جان پہ سہا ہے۔ہجرت کے لغوی معنی اگرچہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونے کے ہیں۔مگرایک مہاجر کی نظر میں ہجرت انسانوںکی محض نقل مکانی کا نام ہی نہیں بلکہ ہجرت تو کسی تناور برگد کے درخت کو جڑوں سے اکھاڑ کر کسی دوسرے مقام کے دامن کے سپرد کرنے کا نام ہے۔ جہاں اسے ہرے بھرے رہنے یاپھر سوکھ جانے کے امکانات یکساں ہوتے ہیں۔ مقام شکر ہے مملکت پاکستان میں پہنچ کر مہاجرین کشمیرہرے بھرے ہیں ۔ہجرت کرنے کافیصلہ لینا بہت ہی مشکل ہوتاہے کیونکہ اپنے آبائی علاقے ،اپنے مسکن ،اپنی جائے پیدائش ، اپنی مٹی اوراپنی ٹھنڈی اورعطر بیز وادیوں کو چھوڑنا اور تر ک کرناکسے برداشت ہوتاہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ: ایسے تو کوئی ترک سکونت نہیں کرتا ہجرت وہی کرتا ہے جو بیعت نہیں کرتا 1988ء سے ہی میںاپنی بساط کے مطابق تحریک آزادی کشمیرکے ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے اپنے انتظام کے ساتھ منسلک ہوں اورخدمات انجام دیتاچلاآرہاہوں۔ 1995ء میںقابض بھارتی فوج نے منحرفین جہاد پرمشتمل کونٹرملی ٹنسی فورس تشکیل دی۔پیچھے سے وار کرنے والے ان غداروں کی دہشت گردی سے سارا کشمیرلرزاٹھااور ایک خوفناک صورتحال پیدا ہوئی ۔ گھر کے یہ بیدی تحریکی وابستگان کوسڑکوں ،گلیوں ،کوچوں چوک چوراہوں، گھروں اور بازاروں میں چن چن کر شہید کرتے رہے اورانکی لاشوں کی بے حرمتی کرتے ۔کئی کئی روز تک شہداء کے جسد خاکی بغیرتجہیزوتدفین پڑے رہتے۔ چونکہ ہمارے انتظام سے وابستہ اعلیٰ قیادت کے بیشتر قائدین و کمانڈرز قابض بھارتی فوج اور کونٹر ملی ٹنسی فورس کا ہدف بنے اور مسلسل شہادتوں اور گرفتاریوں کے باعث انتظام کوایک پریشان کن صورتحال درپیش تھی س ابتر صورتحال کے پیش نظرکیاحکمت عملی ہونی چاہئے اس حوالے سے جولائی 1995ء کے ہفتہ آخر کو کشمیر یونیورسٹی سرینگرکے عربی ڈیپارٹمنٹ میںہمارے انتظام کی ایک خفیہ نشست منعقد ہوئی ۔ اجلاس میں جوفیصلے لئے گئے ان میں میری ہجرت کافیصلہ بھی سنایاگیااورمجھے فوراَ مقبوضہ کشمیر چھوڑنے اورآزاد کشمیرپہنچ جانے کو کہاگیا۔ہرچند کہ میں نے انتظام کے سامنے کئی عوارض سامنے رکھے کہ جومیری ہجرت میں سد راہ بن رہے تھے نیزسرزمین کشمیرپرہی مرنے جینے کی آرزوپیش کی لیکن حالات کی انتہائی زیادہ تپش اوردشمن بھارتی فوج ،اس کے آلہ کاروںاوراسکے جاسوس اداروں کے تیور دیکھ کرمیرامنسلک انتظام میرے عوراض کو ثانوی حیثیت دے کر میری منشاء کے برعکس میری ہجرت پر مصر رہا۔چنانچہ اس فیصلے کے مطابق میں ہجرت کے تگ ودومیں لگا رہا۔ بالآخر اتوار 7اگست سال 1995ء کو میں نے بجھے ہوئے ،اداس ،نڈھال رنجیدہ عالم میں اس خاکسارنے اپناوہ آبائی علاقہ جسکی کھنک فضائیں جو دل کو محضوظ اور دماغ کو معطر بنا رہی تھیں جو میری جائے پیدائش تھا اسے چھوڑنے پرمجبورتھا۔ دل کا ہر درد کراہ رہاتھا ، اس کے ہزار ٹکڑے ہو رہے تھے،ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے میں اپنے والدہ ماجدہ کے قدموں کے نیچے گرپڑا ، ان کی قدم بوسی کی ،ان سے اپنی ہجرت کاتذکرہ نہیں کیاکیونکہ یہ بڑاحساس مسئلہ تھاروتے بلکتے ان سے کہاکہ مجھے عمرے پر جانا ہے ،مجھے سے میری کوتاہیاں معاف کرنا(والد ماجد)چارسال قبل وفات پاچکے تھے ،کسی کو پتا نہ تھا کہ میں اپنے مالوف وطن سے ہجرت کررہاہوںیہ اس لئے صیغہ رازمیں رکھ رہا تھا کہ اگرباتوں باتوں میں کے دوران بات نکل جائے اور دشمن کوپتا لگ جائے تو پھر خیر نہیں۔ بہرکیف! میںاپنی ضعیف العمر والدہ ماجدہ اپنے بہن بھائیوں،اپنی اہلیہ اپنے اپنے بچوں اوراپنے اقرباء واعزاء سے جدائی کی تپش سینہ میں دبا کراوردل کا رستا خون نظر انداز کرکے اپنے مالوف علاقے سے عشق کی چنگاری پر ہاتھ رکھ کر، آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے، ایک گائیڈ کی وساطت سے کئی یوم کی دشوار اور پرخطر مسافت طے کرکے مظفر آباد پہنچا اوریہاں اپنے انتظام سے منسلک ہوگیا۔ ڈیڑھ سال کے بعد تنظیم نے میری اہلیہ اور بچوں کو بھی مظفرآباد بھیجاوہ دن اور آج کادن میں مظفر آباد میں مقیم ہوں۔ مہاجرت کے ان ایام کے دوران مقبوضہ کشمیرمیں میری والدہ صاحبہ ،میرے بڑے بھائی صاحب اور میرا جواں سال بھتیجا، میرے چچااورمیرے کئی قریبی رشتہ دار،اقرباء اوردوست داغ مفارقت دے کر اس دنیائے فانی سے چلے گئے ۔ارض کشمیر پر بھارت کے جبری قبضے ،جارحانہ تسلط کے باعث ہم اپنے رشتہ داروں سے ملنے، ان میں سے فوت شدگان کے جنازوں میں شریک ہونے اور اپنے آباو اجداد کی قبروں پرجاکررب العالمین سے ان کے لئے دعائے مغفرت مانگنے کے ارمان دل میں لئے درد وکرب میں جی رہے ہیں ۔ لیکن اپنے قریبی رشتہ داروں کی ہمیشہ ہمیش کی جدائی کا غم اس وقت بھول جاتاہے کہ جب آئے روز فرزندان کشمیرجو ہمارے وجود کاحصہ ہیںقابض بھارتی فوج کی درندگی اورسفاکیت کا نشانہ بن جاتے ہیں اور1990ء سے اب تک جن کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے ۔کشمیر کے قبرستان جنکے مقابر سے بھرے پڑے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ اس بڑے سانحے کے سامنے میراذاتی غم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔