ان دنوںپیپلزپارٹی پانی پر سیاست کررہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو سندھ میں پانی کی قلت کا واویلا کررہے ہیں‘حسب عادت اسکا سارا الزام وفاقی حکومت پر لگارہے ہیں۔حالانکہ اوائل گرمی کے اس موسم میں دریاؤں میںپانی کم ہوتا ہے تو ہر صوبہ کو اسکی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خریف(گرمی) کی فصلوں کی کاشت کے دن ہیں ۔ جنوبی پنجاب میں کپاس کی کاشت جبکہ سندھ کے جنوبی اضلاع میںچاول کی بوائی کی جارہی ہے۔ آبپاشی کے لیے پانی کی زیادہ ضرورت ہے جبکہ دریاؤں میںپانی آنا شروع نہیں ہوا۔ سندھ میں کپاس کی کاشت پنجاب سے پہلے ہوتی ہے، ا س لئے اس موقع پر اسے پنجاب سے زیادہ پانی فراہم کیا گیا۔سندھ کودریائے جہلم پر منگلا ڈیم سے بھی سات لاکھ ایکڑ فٹ پانی دیا گیا۔ سندھ نے بلوچستان کے حصہ کا پانی بھی خود استعمال کرلیا۔ پانی کی تقسیم کی اتھارٹی ارسا کے مطابق سندھ کو اب تک اپنے حصہ سے چار فیصد کم پانی ملا جبکہ پنجاب کو اسی عرصہ میں اسکے حصہ سے سولہ فیصد کم پانی ملا۔ پنجاب نے تو شور نہیں مچایا ۔ لیکن جب جنوبی پنجاب میں کپاس کی کاشت کو پانی دینے کی خاطر سندھ کے پانی میںمعمولی کمی کی گئی تو بلاول بھٹو نے اسے سیاسی ایشو بنالیا۔ پاکستان کا دریائی نظام ایسا ہے کہ گرمی سے جب گلیشئیر پگھلتے ہیں تودریاؤںمیں پانی آنا شروع ہوتا ہے یا جولائی میںشمالی علاقوں میں مون سون کی بارشیںہوتی ہیں تو دریا ؤں میں پانی رواں ہوتا ہے ۔ جون سے اگست تک تین ماہ کے عرصہ تک پانی خوب آتا ہے باقی سارا سال خشکی رہتی ہے۔ یہ تو بھلا ہو کہ تربیلا اور منگلا ڈیم بنا لیے گئے جن میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے کچھ پانی کو گرمی میں ذخیرہ کرلیا جاتا ہے جسے بعد میں سارا سال تھوڑا تھوڑا کرکے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ بعض برسوں میں برسات زیادہ ہوجاتی ہے تو دریائی پانی کی مجموعی مقدار بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے برسوں میں پانی کی دستیابی چودہ کروڑ ایکڑ فٹ ہوجاتی ہے اور اگر بڑا سیلاب آجائے تو اس سے بھی زیادہ ۔ جب بارشیں کم ہوتی ہیںتو خشک سالی ہوتی ہے۔کچھ سال اتنے خشک ہوتے ہیں کہ پانی کی مجموعی سالانہ مقدار نو کروڑ ایکڑ فٹ تک کم ہوجاتی ہے۔ایسے موقعوں پر ہی سندھ میں پانی کی کم دستیابی کا واویلا مچتا ہے۔ سندھی سیاستدان الزام لگاتے ہیں کہ وفاق انکے صوبہ کو پانی نہیں دے رہا۔پنجاب پر بہتان تراشی کی جاتی ہے کہ وہ سندھ کے حصے کا پانی استعمال کررہا ہے کیونکہ دریا پنجاب سے گزر کر سندھ جاتے ہیں۔ یہ الزام تراشی پرانا کھیل ہے جو اکثر کھیلا جاتا ہے۔ انیس سو اکیانوے میں چاروںصوبوں نے پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ کیا تھاجس میںہر صوبہ کا حصہ ‘ ہر موسم میں مقرر کردیا گیا تھا۔پانی کے معاہدہ کو ممکن بنانے کے لیے بھی پنجاب نے جھگڑا ختم کرنے کی خاطر اپنے حصہ سے کم پانی پر اتفاق کیا۔ آج تک اسی معاہدہ کے مطابق صوبوں کو پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پنجاب نے کبھی سندھ کے حصے کا پانی نہیں روکا۔ پنجاب کی بہت سے نہریں ششماہی ہیں جنہیں صرف گرمی میںچھ ماہ پانی دیا جاتا ہے۔اگر پنجاب اپنی تمام ششماہی نہریں سارا سال کے لیے کھول دے تو دریاؤں کا سارا پانی پنجاب میں استعمال ہوجائے ۔ سندھ تک پانی کا ایک قطرہ نہ پہنچ پائے۔ لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب اور وفاقی حکومت نے ہمیشہ معاہدہ اور ماضی کی روایات کے مطابق سندھ کو اسکے حصہ کا پانی مہیا کیا ہے۔ جو بھی الزام تراشی کی جاتی ہے اس میں حقائق کو عوام کے سامنے توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔اسکے پیچھے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شمالی سندھ میں بڑے بڑے جاگیر دار ہیں جو پاکستان میں سب سے زیادہ فی ایکڑ پانی استعمال کرتے ہیں۔ یہ اتنا پانی چوری اور ضائع کرتے ہیں کہ جنوبی سندھ تک کم پانی پہنچتا ہے۔ جسکا سارا الزام پنجاب پر لگادیا جاتا ہے۔ مثلاً حالیہ دنوں میںارسا کے مطابق سندھ میںدریائی پانی کا 39 فیصد ضیاع ظاہر کیا جارہا تھا۔یہ سارا پانی زمین میں جذب ہوکر یا بخارات میں تبدیل ہوکرضائع نہیں ہوتا بلکہ اسکا کچھ بڑا حصہ جاگیرداروں کے رقبے کاشت کرنے کی غرض سے چوری کیا جاتا ہے۔ سندھ میں آب پاشی کے فرسودہ طریقے رائج ہیں۔ کھیتوں میں پانی کا سیلاب چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہی سندھ کا سب سے برا مسئلہ ہے۔ سندھ کے کاشت کار پنجاب کے کاشتکاروں کی نسبت دوگنا پانی وصول کرہے ہیں لیکن پھر بھی گلہ شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ جتنے رقبہ پر سندھ میں فصل کاشت ہوتی ہے اسکے مطابق صوبہ فی ایکڑ پونے چار فٹ پانی استعمال کرتا ہے جبکہ پنجاب سوا دو فٹ سے بھی کم۔پنجاب میں زیرکاشت رقبہ سندھ کی نسبت دوگنا ہے لیکن اسکو جو دریائی پانی ملتا ہے وہ سندھ سے دوگنا نہیں ملتا بلکہ صرف بیس فیصد زیادہ ملتا ہے۔ اس پر بھی سندھ کے وڈیرے اور جاگیر دار شور مچاتے رہتے ہیں۔مسئلہ سندھ میںپانی کی کمی کا نہیں بلکہ آبپاشی کے طریقوں کو بہتر بنانے کا ہے تاکہ جنوبی سندھ تک پانی پہنچ سکے۔اسوقت بھی پانی کی قلت سندھ کے جنوبی اضلاع میں ہے جہاں چاول کی کاشت ہورہی ہے۔ سردی کے موسم سے اوائل گرمی تک آب پاشی کے لئے پانی کی جو قلت رہتی ہے اورصوبائی جھگڑوں اور تعصب کا باعث بنتی ہے اسکی مقدارعموماًبیس پچیس لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔بہت زیادہ خشک سالی ہو تب بھی چالیس لاکھ ایکڑ فٹ کا خسارہ ہوتا ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو اس سے ساٹھ لاکھ ایکڑ اضافی پانی نظام میں دستیاب ہوتا جسے خشک مہینوں میں استعمال کیا جاتا ۔ کوئی جھگڑا نہیں رہتا۔ 1991 کے پانی کے معاہدہ میں سندھ سمیت تمام صوبوں نے اتفاق کیا تھا کہ پانی کی دستیابی بڑھانے کے لیے نئے ڈیم بنائے جائیںگے ۔ مذاکرات میں سب صوبوں کے وزرائے اعلی نے کالا باغ ڈیم بنانے پر اتفاق کیا تھا لیکن اسکا نام معاہدہ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔یہ ڈیم صرف پانچ چھ برسوں میں مکمل تعمیر ہوجاتا۔ لیکن بعد میں سندھ اور خیبر پختونخواہ وعدے سے منحرف ہوگئے اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت پر اڑے رہے۔ بہر حال اب بھاشا ڈیم پر کام شروع ہوچکا ہے ۔ اگر حکومت مستقل مزاجی سے اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے کام کرتی رہی تو دس بارہ سال میں یہ مکمل ہو جائے گا۔ اس میں ذخیرہ کیا گیا پانی سارا سال حسب ضرورت استعمال کیا جاسکے گا۔ بڑھتی آبادی کے ساتھ پانی کی قلت بڑھتی جائے گی۔خوراک کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے مزید رقبہ کو زیر کاشت لانا پڑے گا۔ اس مقصد کیلیے صوبوں کو کالاباغ ڈیم سمیت مزید پانی کے ذخائر بنانے پر اتفاق رائے پیدا کرنا پڑے گا‘پانی کا ضیاع روکنے کیلیے نہروں کے کنارے پختہ کرنا ہونگے اور کاشتکاروں کو آب پاشی کے جدید طور طریقے اپنانا ہوں گے۔ پانی پر سیاست کھیلنے سے سندھ کے کاشتکاروں کو پانی زیادہ نہیں ملے گا صرف فساد بڑھے گا۔