وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے کندھوں پر اس وقت بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ معیشت دگرگوں ہے، بیرونی و اندرونی قرضوں کا بوجھ ہے، تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے اور مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔معیشت کی بحالی کے لیے جہاں انہوں میثاق معیشت کی بات کی ہے وہیں پر یہ بھی واضح کردیا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں۔ ایک اتحادی حکومت کے سربراہ ہونے کے ناطے انہوں نے قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔ انکی اپنی پارٹی، مسلم لیگ ن، کی ساکھ بھی داو پر لگی ہے کہ اسکی معاشی کارکردگی کا براہ راست اثر اسکی انتخابی سیاست پر بھی پڑے گا۔ یعنی مہنگائی اور مالی بدانتظامی کا وہ فائدہ جو یہ بطور اپوزیشن پارٹی نہیں اٹھا سکی تھی ، تحریک انصاف ضرور اٹھائے گی۔ دوسری طرف آصف علی صاحب نے فرمایا ہے کہ پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ پوری ایک دہائی چلنے کے لیے تیا ر ہے اور یہ کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں، جو تحریک انصاف کے نا اہل ہونے والے ارکان پنجاب اسمبلی کی سیٹوں پر ہورہے ہیں، ن لیگ کے ساتھ مل کر لڑے گی۔ اب پتہ نہیں مسلم لیگ ن کی قیادت اس کو ایک اتحادی کی شرط کے طور پر لیتی ہے یا پھر احسان کے طور۔ ن لیگ واضح طور پر ایک کمرشل نظریات رکھنے والی پارٹی ہے۔ وقت کے تھپیڑوں نے اسکی سوچ اور لائحہ عمل کو ہر گز تبدیل نہیں کیا۔ دوسرے، اس پارٹی پر ایک ہی خاندان کی اجارہ داری ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ایک زمانے سے وہ اشتراکیت کے راہنما اصول ترک کر چکی ہے۔۔ دو ہزار چھ میں اس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ کنڈولیزا رائس کی کوششوں سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایک دہائی کی دشمنی کو پس پشت ڈال دیا، آئین کی بحالی، پارلیمان کی بالادستی، صوبائی خود مختاری اور عدلیہ کی بحالی پر اتفاق کیا۔ مشرف سے این آر او لیکر بینیظیر بھٹو اور نواز شریف وطن واپس آئے۔ رحیم یار خان میں ہوئے ایک جلسے میں پیپلز پارٹی کی تاحیات چئر پرسن بینظیر بھٹو نے مطالبہ کیا کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں اور یہ شرط بھی رکھ دی کہ اگر نتائج پیپلز پارٹی کو پہلے اور ن لیگ کو دوسرے نمبر پر نہ لائے تو وہ انہیں تسلیم نہیں کریں گے۔ ان کے جانشین آصف علی زرداری نے میثاق جمہوریت کی پابندی کی۔ ن لیگ نے بھی ساتھ دیااور یوں اٹھارویں ترمیم ممکن ہوئی جس میں آئین پر شق وار نظر ثانی کرکے میثاق جمہوریت کو عملی جامہ پہنا دیا۔ یہ بات طے لگتی تھی کہ اب دو بڑی پارٹیاں وفاق میں باری باری حکومت کریں گی۔ اس نظام کو دھچکا دو ہزار اٹھارہ میں لگا۔ سیاسی قبیلہ اس کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر لگاتا ہے جس نے تحریک انصاف کی بے جا حمایت کی لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ ایک جمہوری نظام اپوزیشن کے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتا ہے، ایک کثیرالنسلی اور کثیر لسانی معاشرے میں صرف چار شناختیں تسلیم کرنے کا کیا نقصان ہوسکتا ہے اور یہ کہ سیاسی استحکام کے لیے احتسابی عمل کو جامد کرنے کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم کا میثاق معیشت کے حوالے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کی بحالی ناممکن ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سیاست اور معیشت کو علیٰحدہ نہیں مانا جاسکتا۔ اولین ترجیح اگر عوام ہیں تو یہ گتھی بخوبی سلجھ جاتی ہے۔ مقامی حکومتوں کی طرف اتحادی پارٹیوں کی بے توجہی سے سیاست محلات میں مقید ہوگئی ہے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں قدرے تاخیر سے ہونے والے مقامی انتخابات کے نتائج اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ لوگوں نے سیاسی پارٹیوں پر بد اعتمادی کا اظہار کیا ہے اور آزاد امیدواروں کو جتا یا ہے۔سیاسی پارٹیاں سیاسی استحکام چاہتی ہیں تو انہیں عوام کے پاس جانا پڑیگا اور مقامی حکومتوں سے متعلق آئین کی شق پر عمل کرناپڑے گا۔ اس سے ایک تو بنیادی حقوق کی فراہمی ممکن ہوسکے گی، دوسرے صوبوں کے اندر وسائل کی مساویانہ تقسیم کا راستہ بھی کھل جائیگا۔ اتحادی حکومت نے اپوزیشن کے حوالے سے ماضی کی غلطی دوبارہ دہرائی ہے یعنی لا چار و بے بس۔ تحریک انصاف کو واپس لانے کے لیے احتساب، خود مختار مقامی حکومتیں اور انتخابی اصلاحات کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ میثاق معیشت کے متعلق اہم نقطہ یہ ہے کہ اس کے سوتے کہاں سے پھوٹیں گے۔ دور غلامی سے ہمارا انحصار زراعت پر ہے اور اس میں بھی گندم پر۔ جون کے مہینے میں بجٹ بنانے کی روایت تب سے چلی آرہی ہے۔ اس زراعت پر جنگلات، گلہ بانی، تازہ مچھلی، دالیں اور روغنی اجناس کو قربان کردیاگیا۔ ڈیم بنے، نہری نظام وجود میں آیا، دریا سکڑے، جنگل سکڑے اور واگزار رقبوں پر کاشت کاری کی گئی۔ مڈل ایسٹ سے ملنے والے سستے تیل کے دم پر غیر پائیدار بنیادوں پر کھڑی زراعت کے چراغوں میں اب روشنی نہیں رہی۔ کیا ہم پاکستان کو مون سون سے ملنے والے پانی کی قدر کر پائیں گے؟ کیا ہم صرف تیرہ فیصد پانی کو ڈیموں میں سٹور کرنے کے لیے ماحولیات کی تباہی کو جاری رکھیں گے یا پھر دریاوں کو بہتا رکھ کر جنگلات، قدرتی جھیلوں، لائیو سٹاک، دالیں اور تازہ مچھلی کے علاہ زیر زمین لگ بھگ تین سو ملین ایکڑ فٹ پانی سٹو کرنے کا انتظام کریں گے؟ اگر نہری نظام کے ذریعے پچانوے فیصد پانی زراعت کو دینے کی بجائے اگر دریائوں کو چینلوں کی صورت میں بہایا جائے تو تو صحرا بھی سرسبز ہوسکتے ہیں اور سیلابی پانی بھی زیر زمین قدرتی طور پر زخیرہ ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں جہاز رانی سے نقل و حمل کی سستی ترین سہولت بھی میسر ہوسکتی ہے۔ شہروں میں سیورج اور بارشی پانی کو علیٰحدہ کرنے سے نہ صرف شہر سرسبز ہوجائیں گے بلکہ ان میں کاروبار اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ آلودہ پانی کو صاف کرکے اس سے شہروں کو غذائی ضروریات میں خود کفیل کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں ضرور مل بیٹھیں، مقامی حکومتوں پر اتفاق رائے قائم کریں لیکن معیشت پر آبی ماہرین کو ضرور اعتماد میں لیں کیونکہ پانی ہی اس ملک کا اصل اثاثہ ہے اور اگر سمجھاجائے تو یہ ہماری معاشی ضروریات کے حوالے سے تیل سے زیادہ کارآمد ہے۔