Common frontend top

آصف محمود


ضمنی انتخابات: شکر مولا دا، توں سنا


ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ایک طرف وہ فریق ہے، جواسمبلیوں سے استعفے دے کر اسی اسمبلی کے لیے ضمنی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے دوسری جانب وہ فریق ہے جو سارے استعفے قبول کر نے کی بجائے مرضی کے حلقوں سے استعفے قبول کر کے ہوم گرائونڈ پر میلہ لوٹنا چاہتا ہے۔ عوام جائیں بھاڑ میں ، ان کی اور ملک کی مالی حالت کی کسی کو پرواہ نہیں ، قومی خزانے پر سیاستیں ہو رہی ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف ہے ، وہ نہ ضابطے کے مطابق استعفے دے رہی ہے نہ وہ اسمبلی میں جا رہی ہے۔
هفته 15 اکتوبر 2022ء مزید پڑھیے

ہراسانی کا قانون: تصویر کا دوسرا رخ

جمعرات 13 اکتوبر 2022ء
آصف محمود
خواتین کو ہراساں کیا جائے تو قانون موجود ہے اور ہر ورک پلیس پر اس کا ابلاغ بھی اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ ایک ایسا غلیظ جرم ہے جسے نظر انداز کرنا معاشرے کی بنیادیں ادھیڑنے کے مترادف ہے۔لیکن فرض کریں کوئی خاتون کسی مرد پر جھوٹا الزام عائد کر دیتی ہے کہ اس نے مجھے ہراساں کیا اور محکمانہ انکوائری کے بعد ثابت ہو جاتا ہے یہ الزام جھوٹا تھا تو اس شخص کے پاس ازالے کی کیا صورت ہے جس کی عزت ، وقار اور کردار کا تماشا بنایا گیا؟۔۔۔۔۔کیا قانون
مزید پڑھیے


اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو کتنا جانتے ہیں؟

منگل 11 اکتوبر 2022ء
آصف محمود
اسحاق ڈار صاحب نے عمران خان جیسے لہجے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ایک تو آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔سوال مگر یہ ہے وہ آئی ایم ایف کو کتنا جانتے ہیں ؟ نیز یہ کہ اگر آئی ایم ایف بھی انہیں اچھی طرح جانتی ہوئی تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟ یہ ہیرو ، سپر مین اور ٹارزن کا تصور عمران خان نے متعارف کرایا۔عوام کے سامنے کوئی منصوبہ یا لائحہ عمل رکھنے کی بجائے صرف یہ کہا گیا کہ بس ایک دیانت دار کپتان کے آنے کی
مزید پڑھیے


عمران آڈیو۔۔۔ن لیگ کہنا کیا چاہتی ہے؟

هفته 08 اکتوبر 2022ء
آصف محمود
عمران خان کی تیسری آڈیو لیک سامنے آ چکی ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس میں نیا کیا ہے اور اس میںحیرت کی کیا بات ہے اور اس پر اتنی اچھل کود کس لیے ہو رہی ہے؟اگر مقدمہ یہ ہے کہ دیکھیے عمران خان بے نقاب ہو گئے تو سوال یہ ہے کہ عمران صاحب کے پاس اب کون سا نقاب باقی رہ گیا ہے جو ان کے نامہ اعمال کو ڈھانپ سکے؟ وہ تو کسی جان ادا کی طرح اس سماج پر ایسے کھلے کہ ایسے کھلے۔ ان کے دعوے اور ان کا نامہ اعمال ، سب چوراہے میں
مزید پڑھیے


میرے استاد

جمعرات 06 اکتوبر 2022ء
آصف محمود
درہ کوانی سے نکلا تو سامنے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی تھی۔دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔پہاڑ کے اس پار سورج ڈوب رہا تھا اور میں اپنی بکھری یادوں کو جمع کر رہا تھاجنہیں غروب ہوئے بھی زمانے بیت گئے۔یاد آیا آج تو اساتذہ کا دن منایا جا رہا ہے اور ناسٹیلجیا ہاتھ تھامے مجھے ریکٹر آفس کے اندر لے گیا۔ اندر ملک معراج خالد بیٹھے تھے۔اس منصب کی حرمت بہت بعد میں خاک ہوئی،ان وقتوں میں ایک درویش نے اس مسند کو کہکشاں بنا رکھا تھا۔ استاد اگر وہ ہے جس سے آپ نے پڑھا ہے تو
مزید پڑھیے



فوجداری قانون اصلاح طلب ہے

منگل 04 اکتوبر 2022ء
آصف محمود
پاکستان میں فو جداری قانون بطور خاص توجہ طلب ہے۔ معاشرے کو اس قانون کی قباحتوں سے جب تک نجات نہیں مل جاتی تب تک ایک صحت مند سماج کی تشکیل ممکن ہی نہیں۔اس قانون نے معاشرے کی فکر کو مفلوج کر رکھا ہے۔ یہ جو ہم ’ تھانہ کچہری‘ کی سیاست کی اصطلاح سنتے ہیں یہ اصل میں اسی حقیقت کا اعلان ہے کہ بالادست طبقات نے اس معاشرے کی فکر کو زنجیر سے جکڑ رکھا ہے۔یہ زنجیر اس وقت تک نہیں ٹوٹ سکتی جب تک غلامی کی یاد گار اس قانون کو بدل نہیں دیا جاتا۔ فوجداری قانون کی
مزید پڑھیے


کسان آئے ہیں ، جی آیاں نوں

هفته 01 اکتوبر 2022ء
آصف محمود
رات بلیو ایریا کی طرف بڑھا تو پولیس نے روک دیا۔ آگے احتجاج ہو رہا تھا۔ انتہائی کوفت اور اذیت کے احساس کے ساتھ میں نے عرض کی کہ کون احتجاج کر رہا ہے؟ جواب ملا: کسان۔اس جواب میں جانے کیا جادوئی اثر تھا کہ تکلیف اور اذیت کا احساس خوشی میں تبدیل ہو گیا۔ اس ملک کا عام آدمی عمران کی سمارٹ نس ، زندہ بھٹو کی کرامات اور شرافت کی سیاست کی قصیدہ خوانی سے بالاتر ہو کر اگر اپنے مسائل کے لیے باہر نکل ہی آیا تھا تو اس سے مبارک چیز اور کیا ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیے


کشمیرـ: 5 اگست 2019 کے بعد

جمعرات 29  ستمبر 2022ء
آصف محمود
اردو میں لکھنے والے بزدل ہیں یا بد دیانت؟ احباب ناراض نہ ہوں ، میں وضاحت کر دوں کہ ایک تو یہ سوال میرا نہیں ، یہ ممبئی اردو نیوزکے مدیر شکیل رشید کا ہے ۔ دوسرا اس کے مخاطب پاکستانی اہل قلم نہیں بلکہ بھارتی دانشور ہیں۔ شکیل رشید نے یہ سوال کشمیر میں ہونے والے بھارتی اقدامات کے تناظر میں اٹھایا ہے کہ اس ظلم پر اردو لکھنے والے گونگے کیوں ہو گئے؟ وہ بزدل ہیں یا بد دیانت۔ سوال میں البتہ معنویت اتنی ہے کہ آپ اسے میرا سوال بھی سمجھ سکتے ہیں اور آپ اس سوال
مزید پڑھیے


انتہا پسندی کا مرکز مدارس یا جدید تعلیمی ادارے؟

منگل 27  ستمبر 2022ء
آصف محمود
انتہا پسندی کے مراکز مدارس ہیں یا جدید تعلیمی ادارے؟ کیا ہم روایتی طرز فکر سے بلند ہو کر اس سوال پر غور کر سکتے ہیں یا ہم نے طے کر لیا ہے کہ یہ روبکار ہم نے صرف دینی مدارس کو بھیجنی ہے اور جدید تعلیمی اداروں کے پریشان کن معاملات سے آنکھیں بند کیے رہنا ہے؟ کچھ وقت گزرتا ہے اور لوگ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ماضی کی ایک یاد سمجھ کر بھلانا چاہتے ہیں تو ایک نیا حادثہ ہو جاتا ہے۔ چند روز پہلے سوات ایک بار پھر خبروں میں تھا اور یوں محسوس ہو
مزید پڑھیے


ٹرانسفارمر اتارنے میں بائیس سال لگ گئے

هفته 24  ستمبر 2022ء
آصف محمود
ایک خبر یہ ہے کہ گھر کے باہر لگے ٹرانسفارمر کو ہٹوانے کے لیے ایک شہری کو بیس سال قانونی جدوجہد کرنا پڑی اور تب جا کر اس کے حق میں فیصلہ آیا۔بظاہر یہ ایک خبر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانوی نو آبادیات کے تحت قائم کیے گئے اس افسر شاہی اور قانونی نظام کا نوحہ ہے جسے قائد اعظم نے بدلنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کی جگہ بتدریج اپنا مقامی نظام قانون لایا جانا تھا جو اسلامی اصولوں سے مزین ہوتا لیکن ان کے انتقال کے بعد کسی کو یاد ہی نہ رہا کہ اس
مزید پڑھیے








اہم خبریں