Common frontend top

ڈاکٹر حسین پراچہ


سرگودھا میرا شہر! نتیجہ کیا ہوگا؟


ایک قدیم چینی مصنف لِن یوتانگ نے ’’جینے کی اہمیت‘‘ کے نام سے ایک نہایت خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی کتاب لکھی ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحے کی کتاب کے ہر صفحے پر جابجا دلکش تحریریں اور دل میں نقش ہو جانے والی قلمی تصویریں ہیں۔ چاہیں تو آپ ان بکھرے ہوئے موتیوں سے اپنی زندگی کو حسین بنالیں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے آئیڈیاز کو اختیار کر کے گزرتے دنوں کو شاد آباد کرلیں۔ لِن یوتانگ نے اسی کتاب میں ایک مثالی شہر کا نقشہ بھی کھینچا ہے۔ ان کا مثالی شہر ایسا ہے جس کے
هفته 21 جولائی 2018ء مزید پڑھیے

بلاول کی باتیں‘تازہ ہوا کا جھونکا

جمعرات 19 جولائی 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
گرم گفتاری‘ دشنام طرازی اور الزام تراشی کے اس کھولتے ہوئے ماحول میں بلاول بھٹو زرداری نے کم عمری کے باوجود بڑی باتیں کی ہیں، انہوں نے کہا کہ گالم گلوچ کی سیاست نہ جانے ہمیں کہاں لے جائے گی۔ انہوں نے بڑی تشویش کے ساتھ کہا کہ پاکستان ایسی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بلاول بھٹو زرداری نے سیاست ریاست اور اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کی ہے اور ایک نئے میثاق جمہوریت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے بلاول نے خاصی بزرگانہ سی بھی ایک بات کہی ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ
مزید پڑھیے


بجھ تو جائوں گامگر صبح توکر جائوں گا

منگل 17 جولائی 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم بجھ تو جائوں گا مگر صبح تو کر جائوں گا یہ اشعار شہید ہونے والے ہارون بلور نے اپنے والد بشیر بلور شہید کو پس مرگ اعزاز دینے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے اور نہایت پرجوش طریقے سے کہا تھا کہ وطن پر جان قربان کرنے سے زیادہ کوئی قابل فخر اعزاز نہیں۔ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم سے ایک محب وطن پاکستانی نے اپنی گاڑی کا بونٹ سجا رکھا تھا اسی گاڑی پر یہ
مزید پڑھیے


کامیابی یا تصادم

هفته 14 جولائی 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
جمعۃ المبارک کو میاں نواز شریف صاحب وطن واپس آ گئے۔ اُن کا اپنا وطن ہے نت نت آئو جم جم آئو، جی آیاں نوں۔ مگر ہر باشعور پاکستانی حیران ہے کہ وہ میاں صاحب کا استقبال کیوں کرے؟ وطن واپسی سے پہلے انہوں نے جو کچھ وطن کے بارے میں کہا وہ کبھی کوئی محب وطن شخص نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے اپنے ہی ملکی اداروں کے بارے میں ایک بیگانی سرزمین پر بہت زہر اگلا۔ جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے جب کبھی یورپ و امریکہ وغیرہ کے سفر کے دوران لوگ چبھتے ہوئے
مزید پڑھیے


آئی ایم ایف:پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے

جمعرات 12 جولائی 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
ہمارے حکمران ہر بار دعویٰ کرتے ہیں کہ اب ہم کسی عالمی بنک یا آئی ایم ایف کے سامنے کشکول گدائی لے کر نہ جائیں گے‘ اپنی معیشت کو مضبوط کریں گے اور کسی کے آگے دست سوال نہ پھیلائیں گے مگر ہر بار ہوتا اس کے برعکس ہے۔ اب ہم پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دیتے دکھائی دے رہے ہیں : دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے اسد اللہ غالب نے اپنی معاشی ابتری اور بڑھتی ہوئی شراب نوشی کا نوحہ یوں سنایا تھا: قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے
مزید پڑھیے



کیا میاں صاحب کے پاس واپسی کے علاوہ کوئی راستہ تھا؟

منگل 10 جولائی 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
پنجاب کے پرانے کلچر کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف کے نورتنوں میں سے کسی نے انہیں مشورہ دیا ہو گا کہ جٹ چڑھیا کچہری بلے بھئی بلے کبھی دو چار بندے بھگتا کر یا رسہ گیری کی کوئی بڑی واردات کر کے جس ٹاٹھ باٹھ سے جٹ کچہری میں پیش ہوتا تھا اس پر دیہاتی معاشرے میں بڑی واہ واہ ہوتی تھی۔ مگر میڈیا کی بدولت دیہاتی لوگ شہریوں سے زیادہ باشعور ہیں اور انہیں کھرے کھوٹے کی پہچان ہے۔ آفرین ہے میاں صاحب پر کہ صرف پاکستان کی احتساب عدالت میں ان کی ایون فیلڈ کرپشن نہیں
مزید پڑھیے


فیصلہ :ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا

هفته 07 جولائی 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
عدالت کے لکھے فیصلے مؤخر ہو سکتے ہیں مگر تقدیر کے لکھے فیصلے کبھی مؤخر نہیں ہوتے۔ نہ ایک گھڑی ادھر نہ ایک گھڑی ادھر۔ تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہاں ! مگر اللہ کے آخری نبیؐ نے مایوس انسانوں کی امید بندھائی اور فرمایا کہ تقدیر کے فیصلے کو بھی ایک شے ٹال سکتی ہے۔ ایک شے بدل سکتی ہے۔ ایک شے سیاہی کو سفیدی سے‘ تاریکی کو روشنی سے رات کی زلف سیاہ کو سپیدہ سحر سے بدل سکتی ہے۔ اس شے کا نام ہے دعا۔ جناب رسالت مآبؐ کا ارشاد برحق ہے مگر یہ
مزید پڑھیے


Party is Over

جمعرات 05 جولائی 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
میرے گرائیں اور دوست سہیل وڑائچ نے آج صبح فون پر پوچھا کہ میں نے تمہیں اپنی نئی کتاب Party is Over بھیجی تھی، مل گئی یا نہیں؟ عرض کیا ابھی تک کتاب نہیں ملی یا جب ملے گی تو حق کتاب ضرور ادا کروں گا۔ البتہ آج ہی کے اخبار میں آپ کی کتاب کا تذکرہ اپنے ایک عزیز انقلابی دوست کی زبانی پڑھا۔ ہمارے یہ انقلابی دانشور بارہا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنی فکری و اسلامی ساخت و پرداخت کے لیے مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی کے مرہون منت ہیں اور وہ یہ اعتراف کرتے بھی سنائی
مزید پڑھیے


عوامی عدالتیں

منگل 03 جولائی 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
آج کل عوامی نمائندے جس حلقے میں ووٹ مانگنے جاتے ہیں وہاں عوامی عدالتیں لگ جاتی ہیں۔ یہ عدالتیں اپنے نمائندوں سے بس ایک سوال پوچھتی ہیں۔ ’’چن کتھاں گزاری آ ای رات وے‘‘ بیچارے ستم زدہ ‘ بے بس ووٹر جس رات کی بابت پوچھتے ہیں وہ طویل پانچ برس پر محیط لمبی اور کالی رات تھی۔ وہ نمائندوں سے پوچھتے ہیں حضور آپ تو بڑے وعدے کر کے گئے تھے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کی نوید سنا کر گئے تھے اور اب آپ پانچ برس بعد آئے ہیں۔ اس دوران بندہ پرور ہم پہ کیا گزری آپ
مزید پڑھیے


تیسرا آپشن کوئی نہیں!

هفته 30 جون 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
گزشتہ تین چار صدیوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایسی دنیا بھی نظر آئے گی جہاں روز کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ نیا ہوتا ہے۔ وہ وہ ایجادات سامنے آتی ہیں جن کا کبھی تصور بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ایک شعبے میں نہیں سینکڑوں شعبوں میں خلق خدا کی فلاح کے لیے ایسی ایسی سہولتیں وجود میں آئی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پہلے وطن میں جن کا خط نہ آنے سے مائیں مضطرب و بے چین ہو جایا کرتی تھیں اب وہ سات سمندر پار سے جب چاہتے ہیں‘ جس وقت چاہتے ہیں‘ گھر
مزید پڑھیے








اہم خبریں