Common frontend top

سجاد میر


کراچی کے لئے کوئی راستہ


اس ملک میں سلامتی اور سکیورٹی کے نام پر کیا کچھ نہیں ہوتا۔ آج مگر میرا یہ موضوع نہیں ہے۔ میں کراچی کے مسئلے پر ٹی وی پر ایک گفتگو سن رہا تھا۔ درمیان میں چونک پڑا جب اس حوالے سے بھی سکیورٹی کے مسئلے زیر غور آئے۔براہ راست نہ سہی۔ اس انداز ہی سے سہی کہ کراچی میں ایک مرکزیت قائم نہیں ہو پاتی۔یہاں تو کوئی 22آزاد و خود مختار ادارے ہیں جو الگ الگ جام کرتے ہیں۔ اس میں ایسے ادارے بھی ہیں جن کا براہ راست سکیورٹی سے تعلق نہیں‘ مگر وہ کسی کنٹونمنٹ بورڈ کے تحت
پیر 24  اگست 2020ء مزید پڑھیے

سویڈن سے…محبت کے ساتھ

هفته 22  اگست 2020ء
سجاد میر
وہ جو کہتے ہیں کہ اگر آپ جج کو قائل نہ کر سکیں تو اسے کنفیوژ کر دیں۔ہو سکتا ہے آپ کو اس کنفیوژن کا فائدہ پہنچ جائے۔ آج کل کچھ لوگوں نے طے کر رکھا ہے کہ آپ اگر قوم کو اپنے نکتہ نظر کے بارے میں قائل نہ کر سکیں تو اسے کنفیوژ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر دیں۔ اللہ بھلی کرے گا۔ اس فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ایسے دانشور ابھرتے رہتے ہیں جو اس بیچاری قوم کے دل و دماغ میں ہنگامے برپا کیا کرتے ہیں۔ آج ہی میں
مزید پڑھیے


جم جم کھیلے‘ مرا کپتان

جمعرات 20  اگست 2020ء
سجاد میر
ہر حکومت کو حق ہے کہ وہ اپنے دور کی کارکردگی کا تذکرہ و تجزیہ کرے۔ وہی پرانی بات ‘ کیا کھویا ہے کیا پایا ہے تاہم ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومتیں ایسے وقت اپنے دور کی خوبیاں تلاش کر کے بیان کرتی ہیں۔نہیں ہوتیں تو انہیں گھڑ لیتی ہیں۔ کسی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ ایسے موقع پر سچ کہے گی اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہے گی‘ ایک عبث بات ہے۔ یہاں مگر ایک بہت اہم معاملہ ہے کہ حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا شوق کب اور
مزید پڑھیے


ذرا غور کیجیے

پیر 17  اگست 2020ء
سجاد میر
میں یہ بھول ہی گیا کہ اس وقت 2020ء ہم پر بیت رہا ہے۔ ماہرین کئی سال پہلے ہمیں نوید دیا کرتے تھے کہ جب یہ سال آئے گا تو ہماری شرح نمو 7فیصد ہو جائے گی۔ یہ گویا ایک سنگ میل تھا جسے ہم عبور کرنا چاہتے تھے۔ ملک میں جو سیاسی دھماچوکڑی مچی تو یہ بات بتا دی گئی کہ اب یہ سنگ میل ہم 2023ء میں عبور کریں گے گویا ہمارا ملک ترقی کی رفتار میں تین سال پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ سنگ میل ایسا ہے کہ عام طور پر یہاں پہنچ کر کوئی قوم وقت
مزید پڑھیے


اداسی کا سبب

هفته 15  اگست 2020ء
سجاد میر
آج میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں‘ میراا یوم آزادی ہے۔ میں کئی لحاظ سے خوش ہوں۔ طبعاً ناشکرا آدمی نہیں ہوں‘ مگر اس کے ساتھ ایک طرح کی اداسی بھی ہے۔ ویسے تو اداسی کی کئی وجوہ ہو سکتی تھیں۔ مگر جس بات نے آج اداس کر رکھا ہے۔ وہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر لینا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ایسا ہونا ہی تھا اور اس کی ہر وقت توقع رکھنا چاہیے تھی۔ اس وقت ان لوگوں کی کمی بھی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو بعض مسلمان ممالک
مزید پڑھیے



خارجہ پالیسی کے نئے تقاضے

جمعرات 13  اگست 2020ء
سجاد میر
یا تو ہم اعلان کر دیں کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی سب سے کھلی دلیل یہ ہے کہ ہمارے پیارے قدیمی دوست سعودی عرب میں جو ہر مشکل میں ہمارے کام آیا اور جس نے ہر خوشی کے موقع پر دل کھول کرہمیں داد دی‘ اس نے ہم سے اپنا قرض واپس مانگ لیا ہے۔ مانگا ہی نہیں وصول بھی کر لیا ہے۔ یہ قرض اتنا بھی نہ تھا کہ سعودی معیشت کے لئے بوجھ بنتا۔ ہمارے لئے البتہ یہ بہت ضروری اور ناگزیر تھا۔ ایک ارب ڈالر ہمارے لئے بہت اہم تھے۔ یہ ایسا
مزید پڑھیے


ملک مقدس ہے‘ صوبے نہیں

پیر 10  اگست 2020ء
سجاد میر
میں یہ بات کئی بار لکھ چکا ہوں مگر آج اس پر زور دینے کے لیے گفتگو کا آغاز ہی اس سے کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہ صوبے مقدس نہیں‘ ملک مقدس ہے۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ یہ ملک صوبائی اکائیوں نے مل کر بنایا تھا۔ سچ پوچھئے تو جب یہ ملک بنا تھا تو صوبے تقسیم ہوئے تھے۔ پنجاب اور بنگال دو ٹکڑوں میںبٹے تھے۔ سندھ پہلے ہی تقسیم کے عمل سے گزر چکا تھا وگرنہ وہ ممبئی میں شامل تھا اور خیبر پختونخوا میں تو بہت سا علاقہ وفاق کے ماتحت قدرے آزادانہ حیثیت رکھتا
مزید پڑھیے


کشمیر کی راہ پر

هفته 08  اگست 2020ء
سجاد میر
یہ بات تو ہماری حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ ہم جو کشمیر پر بھارت کی غضب ناکی کا ایک سال پورا ہونے پر احتجاج کر رہے ہیں، اس کی حیثیت علامتی ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہم ایسا محض دکھاوے کے لئے کر رہے ہیں‘ بلکہ کہنا یہ ہے کہ ہم خاموش رہتے تو دنیا یہ سمجھتی کہ ہمیں کشمیر کے معاملے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہم اس پر واویلا کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بھارت نے ساری حدیں پار کر دی ہیں اور عالمی ضمیر نے خاموش رہ کر بہت بڑا ظلم
مزید پڑھیے


پولیو کی مہم

بدھ 29 جولائی 2020ء
سجاد میر
اصل تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی پولیو ویکسین کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں جو ٹھیک ٹھاک پڑھے لکھے ہیں اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ انسان کے رویے اور اس کے فیصلے صرف علم کی دولت کے مرہون منت نہیں ہوتے‘ بلکہ اس کلچر اور اسلوب حیات کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں جو وہ اختیار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی معقول عالم دین کو اس کی مخالفت کرتا نہیں پائیں گے مگر وہ لوگ جو طالبان یا اس قبیل کے انداز فکر کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ پولیو ویکسین کی مخالفت کرنا
مزید پڑھیے


دوہری شہریت کا مسئلہ

هفته 25 جولائی 2020ء
سجاد میر
آیا صوفیہ کے مناظر ایسے دلکش ہیں کہ اٹھنے کو دل نہیں چاہتا مگر کالم لکھنے کا وقت گزرتا جا رہا ہے۔ جو موضوع چار چھ دن سے کچوکے لگا رہا ہے‘ وہ دوہری شہریت رکھنے والوں کا مسئلہ ہے۔ اسے خوامخواہ الجھایا جا رہا ہے۔ ملک کی اجتماعی ذہانت نے پارلیمنٹ میں فیصلہ کیا کہ دوہری شہریت رکھنے والے پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہو سکتے۔ پھر سوال اٹھ کھڑا ہوا آیا وہ کابینہ کے رکن ہو سکتے ہیں۔ اگر کابینہ کے رکن ہو سکتے ہیں تو آیا یہ پارلیمنٹ کا رکن ہونے سے کم تر ذمہ داری ہے یا
مزید پڑھیے








اہم خبریں