حافظ آباد کے گاؤں کوٹ حشمت سے ہمیں ایک نہایت افسوس ناک واقعے کی تفصیل ملی ہے، جسے ہم نمناک آنکھوں سے آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ یکم جولائی کی صبح جب نمازیوں کا ایک گروہ گاؤں کی مسجد میں نماز فجر کے لیے پہنچا تو امام مسجد مولوی غلام محمد انہیں کہیں نظر نہ آئے۔ نمازی بہت پریشان ہوئے کیونکہ مولوی صاحب تو ہمیشہ نمازیوں سے پہلے مسجد میں موجود ہوتے تھے۔ انہوں نے موذن سے وضاحت چاہی تو وہ بھی کچھ نہ بتا سکا۔ ادھر نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ مجبوراً انہوں نے موذن کی امامت میں نماز ادا کی۔ نماز کے بعد سب نے صدقِ دل سے دعا مانگی کہ خدا کرے مولوی صاحب خیریت سے ہوں۔’’۲۲ جون کو مولوی صاحب کی شادی ہوئی تھی۔ وہ کہیں ہنی مون منانے کے لیے سوات کی طرف نہ نکل گئے ہوں! ‘‘ ایک صاحب نے خدشہ ظاہر کیا۔’’یار کیسی باتیں کر رہے ہو؟ ان کی ٹانگوں میں اب اتنا دم خم کہاں کہ پہاڑوں پر چڑھ سکیں۔ وہ تو میدانی علاقے میں بھی بڑی مشکل سے حرکت کرتے ہیں۔ ان کی غیر حاضری کی وجہ شادی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ شادی کے بعد بھی امامت فرمانے تشریف لاتے رہے ہیں۔ ہمیں چل کر پتہ کرنا چاہیے کہیں وہ انتقال ہی نہ فرما گئے ہوں!‘‘’’ میاں ایسی بات کرنے سے پہلے’ اللہ نہ کرے، یا میرے منہ میں خاک کہنا چاہیے‘‘ ایک بزرگ نے کہا! ’’میری عقل تسلیم نہیں کرتی کہ وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں، پچھلے پچاسی سال میں ایک بار بھی ان کا انتقال نہیں ہوا۔ اب کیسے ہو سکتا ہے! ویسے بھی جن لوگوں کا انتقال کرنے کا پروگرام ہوتا ہے انہیں شادی کہاں سوجھتی ہے۔‘‘’’ویسے یارو! مجھے مولوی صاحب سے زبردست گلہ ہے، ہم سالہا سال سے ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ ہم کیا ہمارے باپ دادا بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ہیں لیکن انہوں نے ہم میں سے کسی کو بھی اپنی شادی خانہ آبادی پر مدعو نہیں کیا‘‘ ایک شخص نے شکایتاً کہا۔ یہ سن کر ایک نوجوان نے جو مولوی صاحب کی نواسی کا داماد تھا، کہا: ’’مولوی صاحب کے مالی حالات اتنے خراب تھے کہ وہ مہمانوں کو بلا ہی نہیں سکتے تھے۔ اور تو اور ان کی اپنی اولاد بھی شادی میں شرکت نہیں کر سکی۔ ان کی ۹ بیٹیوں کے آگے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ ان کی بھی ماشا اللہ کافی اولاد ہے۔ صرف ان کے ذاتی خاندان کے افراد کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ لیکن انہوں نے صرف اپنی سب سے بڑی بیٹی کو نکاح پر بلایا تھا۔کسی نے مولوی صاحب کو بتایا کہ ان کی بڑی بیٹی تو وفات پا چکی ہیں، لہٰذا وہ اس سے چھوٹی بیٹی کو بلا لیں، لیکن مولوی صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کی شادی میں خود وہ، ان کی دلہن اور دلہن کی نانی تھی۔ دلہن کی والدہ وفات پا چکی ہیں۔ مالی بدحالی کی وجہ سے مولوی صاحب نکاح خواں کو بھی نہیں بلا سکے۔ چنانچہ انہیں اپنا نکاح خود ہی پڑھنا پڑا‘‘۔ مولوی صاحب کی مالی پریشانی کا سن کر ایک شخص بولا: ’’سمجھ میں نہیں آتا مولوی صاحب کو کیا مالی تنگی ہے۔ کپڑے اور حلوہ انہیں گاؤں والے دے جاتے ہیں۔ صحت ان کی ماشا اللہ اب بھی قابلِ رشک ہے۔ سارے گاؤں میں ان کی کھانسی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ رعشے سے ان کا ہاتھ اتنی تیزی سے حرکت کرتا ہے کہ کسی کو لگ جائے تو اس کی ہڈی ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ گویا ان کا سرے سے کوئی خرچ ہے ہی نہیں‘‘۔ یہ سن کو مولوی صاحب کی نواسی کا داماد بولا ’’دراصل ان کی تازہ ترین شادی سے پہلے ان کی مالی حالت کافی اچھی تھی۔ پچھلے ستّرسالوں میں انہوں نے تقریباً پچاس ہزار روپیہ جمع کر لیا تھا مگر شادی کے لئے انہیں لڑکی نہ مل سکی، پھر مجبوراً انہیں چالیس ہزار روپے میں دلہن خریدنا پڑی، باقی دس ہزار روپے انھیں زیورات اور کپڑوں پر خرچ کرنا پڑے۔ خیر پیسے تو سارے لگ گئے لیکن انھیں بیس سال سے بھی کم عمر چیز مل گئی‘‘۔ ’’پچاسی سال کی عمر میں بیس سال کی دلہن!‘‘ ایک تیس سال کا نوجوان بولا:’’ ایک ہمہیں کہ اپنی ہم عمر بھی نصیب نہیں ہوئی‘‘۔’’تم ابھی سے نوجوان دلہن کی تمنا کرنے لگے ہو۔ ذرا یہ تو سوچو مولوی صاحب کو بیس سال کی دلہن کے لئے انتظار کتنا کرنا پڑا‘ ‘ایک اور صاحب بولے۔ ’’یارو تم نے کیا مذاکرہ شروع کر دیا۔ چلو چل کر مولوی صاحب کا پتہ کریں ‘‘ ۔ ایک صاحب نے کہا۔’’ہاں ہاں چلو‘‘ یہ کہہ کر سب مولوی صاحب کے کچے کوٹھے کی طرف چل دیئے جو کہ مسجد کے پچھواڑے میں واقع تھا۔ نمازی مولوی صاحب کے دروازے پر پہنچے تو اندر سے مولوی صاحب کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ سب گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ’’رونا تو دلہن کو چاہیے تھا یہ مولوی صاحب کیوں رو رہے ہیں؟‘‘کسی نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’ممکن ہے خوشی کی شدت سے رو رہے ہوں۔میں اندر جا کر پتہ کرتا ہوں‘‘ مولوی صاحب کی نواسی کا دامادیہ کہہ کر اندر چلا گیا ۔ باہر سب دم بخود کھڑے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ باہر آ کر بولا! ’’ غضب ہو گیا بھائیو! دو دن کی دلہن اپنے منہ بولے بھائی کے ساتھ بھاگ گئی اور اپنے ساتھ دس ہزار کے زیورات اور کپڑے بھی لے گئی‘‘۔ یہ سنتے ہی سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ وہ فوراً اندر داخل ہوئے۔ کونے میں ایک طرف حجلہء عروسی میں مولوی صاحب بیٹھے زاروقطار رو رہے تھے۔’’ہائے مولوی صاحب یہ کیا ہو گیا!‘‘ ایک شخص نے بین کرتے ہوئے کہا۔ ’’ میں لُٹ گیا بھائیو میں لُٹ گیا۔ میری عمر بھر کی کمائی لُٹ گئی‘‘۔مولوی صاحب نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔’’ہائے مولوی جی منہ بولے بھائی کے ساتھ بھاگ گئی!اتنی بے حیائی! اتنی بے شرمی! قیامت کے آثار ہیں مولوی جی۔ کیا یہ قیامت کی نشانیاں نہیں؟‘‘ اس شخص نے بین جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’منہ بولے بھائی کی عمر کیا تھی مولوی جی؟‘‘’’وہ خبیث! وہ ملعون! پچیس سال کا ہو گا‘‘۔ مولوی صاحب سرد آہ بھرتے ہوئے بولے۔ ’’افسوس! افسوس!! اپنے دادا جیسے بزرگ کے ساتھ یہ حرکت کرتے ہوئے اسے شرم نہ آئی! اسے کیوں شرم نہ آئی؟ صبر کریں، مولوی صاحب صبر کریں‘اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اللہ کا نام سنتے ہی مولوی صاحب کے آنسو تھم گئے۔