اسلام آباد(خبر نگار؍ نیوز ایجنسیاں) قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کی تقرری میں پارلیمنٹ کا موثر کردار ہونا چاہئے جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا 19ویں آئینی ترمیم ہمیں دھمکی دے کر منظور کرائی گئی ۔کانفرنس سے محمود خان اچکزئی ،امیر حیدر خان ہوتی ،عبد المالک بلوچ ،مولانا غفور حیدری اور دیگر سیاسی رہنمائوں نے بھی خطاب کیا ۔اپنے خطاب میں شہبا زشریف نے 18ویں آئینی ترمیم کا دفاع کیا اور کہا کہ مضبوط وفاق کے لئے صوبوں کے اختیارات کو تحفظ دینا ہوگا۔انہوں نے بھٹو خاندان کی سیاسی قربانیوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بلاول کے خاندان نے قربانیاں دی ہیں، ہمارے پشتون،بلوچ بھائیوں نے گراں قدر خدمات اور قربانیاں دیں۔انہوں نے کہا ملک میں انصاف سے متعلق نشیب و فراز آتے رہے ، مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس کارنیلئس نے اختلافی نوٹ لکھا تھاپھر ایک جج صاحب نے نظریہ ضرورت کو متعارف کرایا،آج کے دور کا جج ارشد ملک بھی آپ کو یاد ہوگا،مختلف ادوار میں آمر نے اپنی مرضی کی ترامیم سے عدلیہ کو کمزور کیا۔انہوں نے کہا چند منصف کی شکل کے لوگوں نے پرویز مشرف کو وہ دے دیا جو مانگا نہ گیا،ایسے فیصلے عدلیہ کے چہرے پر دھبہ ہیں،ماضی پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے کہا سیاسی جماعتوں کیخلاف جو مہم چلائی گئی، اس سے ماحول آلودہ ہوچکا ہے ، یقین دلاتا ہوں کہ میڈیا کی آزادی کیلئے پوری طرح سپورٹ کرتے ہیں،کالے کوٹ والوں نے عدلیہ کی بحالی کیلئے قربانیاں دی ہیں ، نتیجہ کیا نکلا ،اس پر بحث ہوسکتی ہے ۔شہباز شریف نے کہا آج حالات پھر مختلف ہوگئے ہیں، عدلیہ میں جن کا ضمیر زندہ ہے ،وہ دبائو کے باوجود انصاف پر مبنی فیصلے دیتے ہیں، ارشد ملک جیسی کالی بھیڑیں بھی ہیں۔انہوں نے کہا بلوچستان کے مسائل حل کرنے کیلئے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔شہباز شریف نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی کا نام لئے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی، جسٹس فائز عیسی کے معاملے کو سیاسی نہیں بنانا۔ انہوں نے کہا چھوٹے صوبوں کے حقوق سلب کرکے ایک صوبے کو پاکستان سمجھنا غلط فہمی ہے ، ایماندار اور محنتی منصف کا انتخاب کیسے کیا جائے ؟ کالے کوٹ والے ہمیں بتائیں۔انہوں نے کہا احتساب نہیں انتقام کی چکی سے گزر رہے ہیں، اللہ نے سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو ہمت دی ہے جو اس چکی سے گزر رہے ہیں، احتساب کے نام پر انتقام کی چکی کا نقصان ملک کو پہنچ سکتا ہے ،شفاف احتساب ہو تو آدھی کابینہ بچ نہیں سکتی۔ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں خاندان کی قربانیوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ کہ اس خون سے یہ دستور بنا ہے اور ہم نے دستور کو بچانا ہے ، ہمارا مقصد ایک ہے تو اب حکمت عملی بھی ایک ہی کرنا ہوگی، امید ہے 20 ستمبر کی اے پی سی میں تمام جماعتیں ایک پیج پر ہونگی۔انھوں نے کہا آج یہاں وہ بھی ہیں جو کہتے تھے بی بی کرپٹ ہے ، آج انہیں شہید کہتے ہیں، بی بی کو جو کہتے تھے عورت ہے ، وزیراعظم نہیں بن سکتی، آج وہ بھی یہاں موجود ہیں،میرے خاندان کو شہید کیا گیا، نانا کو پھانسی چڑھایا گیا ،مرتضیٰ بھٹو کو کراچی کی سڑکوں پر شہید کیا گیا، شاہنواز بھٹو کو زہر دیا گیا، بی بی کو راولپنڈی کی سڑکوں پر بم دھماکے میں شہید کیا گیا، شہید بھٹو کو کافر اور غدار کہنے والے آج انہیں شہید کہنے پر رضامند ہیں۔ بلاول نے کہا ہم پر حملے ہوئے لیکن اپنے موقف پر قائم ہیں جو ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آج ہے ،وہ ہماری قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔انہوں نے کہا بتایا جاتا ہے ہم مدینہ کی ریاست میں ہیں ،مدینہ کی ریاست کے موٹروے پر عورت کیساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی جن کا کام عورتوں کو تحفظ دینا ہے ، وہ مجرم پر نہیں، مظلوم پر سوال اٹھاتے ہیں ،ایسے لوگوں کے دفاع میں وزیراعظم اور وزرا سامنے آ جاتے ہیں ۔بلاول بھٹو نے کہاکہ میڈیا میں سیلاب متاثرین کی آواز بلند کرنے کیلئے کوئی نہیں ہے ، آج سیلاب متاثرین لاوارث ہیں۔انہوں نے کہا اہم ترین قانون سازی بھی آزاد ماحول میں نہیں کی جاتی ،ہر اہم قانون سازی رولز اور پارلیمان کو بے اختیار کرکے پاس کرائی گئی۔انہوں نے کہا کل سپیکر ووٹ کی دوبارہ گنتی پر بھی ساتھ نہیں دے رہے تھے ،ہمارا ووٹ نہیں گنا جائے گا تو ہمیں بھی سوچنا ہوگا کب تک پارلیمان کو ربڑ سٹمپ کے طور پر رکھنا ہے ، اپوزیشن لیڈرز پر مدینہ کی ریاست میں زیادہ پابندیاں ہیں، نئے پاکستان میں ہر طبقے کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں ۔بلاول نے کہا آج سب بار والوں سے شکوہ کرنا ہے افتخار چودھری کے وقت پیپلزپارٹی نے آپ کے موقف کا ساتھ دیا؟ بار نے آزاد عدلیہ کے نام پر افتخار چودھری کا ساتھ دیا، اینٹ سے اینٹ بجانے نکلے تو کہا گیا اپنی کرپشن بچانے کیلئے بول رہے ۔بلاول نے کہا ہر سیاسی جماعت سے غلطیاں ہوئی ہیں، سب کی اپنی شکایات ہیں ،میثاق جمہوریت میں تھا کہ ججز کی تعیناتی کیسے ہوگی، میثاق جمہوریت پر بہت کام کیا تھا جو رہ گیا وہ عدلیہ سے متعلق ہے ،19 ویں ترمیم ہم سے زبردستی کرائی گئی۔انہوں نے کہا زور زبردستی پر قانون سازی ہو تو یہ کمپنی نہیں چلے گی، زور زبردستی سے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلا گیا تو تباہی آئے گی ۔بلاول بھٹو نے کہاہر سیاست دان کو ڈنڈے اور عدالت سے چلانے کی کوشش تو ہو سکتی ہے لیکن یہ کمپنی نہیں چلے گی ۔انہوں نے کہامعاشرتی حقوق پر ہم سب کا ایک ہی مطالبہ آنا چاہئے ، مدینہ کی ریاست میں کوئی کتاب نہیں چھپ سکتی، کوئی ٹویٹ نہیں کر سکتا۔ محمود اچکزئی نے کہا ا گر 18ویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو ہم نئے آئین کا مطالبہ کریں گے ،ہم قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف دیں گے کہ ہم اس ملک کو توڑنا نہیں چاہتے لیکن ہم دوسرے درجے کے شہری کسی صورت نہیں بنیں گے ، لیگ آف نیشن میں 60 ملک آزاد تھے ،75 سال میں یہ تعداد 200 سے زائد ہو گئی، یہ ملک آسمان سے نہیں گرے بلکہ استحصال کی وجہ سے آزاد ہوئے ۔ انہوں نے کہا اے پی سی کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کسی فوجی کا رول قبول نہیں کرنا،ہمیں فوجی اور سول ڈکٹیٹر شپ کا راستہ بھی روکنا ہوگا،ہمیں بلاول اور شہباز کی شکل میں سول ڈکٹیٹر شپ کا راستہ روکنا ہوگا۔سابق وزیراعلیٰ کے پی امیر حیدر ہوتی نے کہاکہ ججز کے غیرجانبدار ہونے پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے ، جب تک ججز آزاد اور دبائو سے باہر نہ ہوں تو انصاف نہیں ہوسکتا ،جسٹس قاضی فائز عیسی کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، ججز تعیناتی میں عدلیہ اور پارلیمان دونوں کا کردار ہونا چاہئے ۔رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہاکہ پارلیمان سپریم ہے تو اس کی سپر میسی کیسے قائم کریں ؟سیاسی قوتوں کیلئے چیلنج ہے ، اس سے بد تر حالات ہو نہیں سکتے ۔ انہوں نے کہااعلیٰ عدلیہ کے رویے کی وجہ سے ملک میں عدم توازن پیدا ہو رہا ہے ۔وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے کہا اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کے طریقے کار میں تبدیلی ہونی چاہئے ،ججز تعیناتی کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہونا چاہئے ،پارلیمان ججز تقرری میں سب سٹیک ہولڈرز کو شامل کرے ،عدلیہ کی آزادی کے بغیر آ ئین پر عمل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔جے یو آئی کے عبدالغفور حیدری، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر جہانزیب، نیشنل پارٹی کے عبدالمالک بھی اے پی سی میں شریک ہوئے ۔دعوت کے باوجود آ ل پارٹیز کانفرس میں حکومتی جماعت تحریک انصاف کا کوئی بھی رکن شریک نہیں ہوا۔