گہری نظرسے دیکھاجائے توامریکہ ہرطرح اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔سفاکیت ، ناانصافی، استحصال، اجارہ داری ،دھونس ،دبائواور استبداد کے روادارامریکہ نے دومسلمان ممالک افغانستان اورعراق کومحض اس وجہ سے تاراج کردیاکہ یہاں ملامحمدعمراورصدام حسین نے اس کی خدائی کے جھوٹے دعوے کوماننے سے انکارکرتے ہوئے اس کے شکنجے’’ نیوورلڈ آرڈر‘‘ کوجوتے کے نوک پر رکھنے کاقصدکیاتھا اسی جرم میں امریکہ نے لاکھوں فرزندان توحید کوخاک اورخون میں تڑپایا اور دونوں ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ گوانتاناموبے ،ابوغریب کے تعذیب خانوں میں کلمہ گو مسلمانوں سے ایساوحشیانہ سلوک کیا گیا جو جانوروں کے ساتھ بھی نہیںروا رکھا جا سکتا۔ دنیابھرمیں پائے جانے والے تنازعات میں دلائل اوربراہین کے ساتھ حق وصداقت کاموقف رکھنے والے مسلمانوں کے بجائے قابض ،جارح اورسفاک ممالک کے ساتھ کھڑارہا۔مسلمانوں کے دومقبوضہ خطوں فلسطین اورکشمیرکے مقابلے میں ہمیشہ دوقابض ممالک بھارت اوراسرائیل کی پشت پناہی کرتارہا۔غرض اسلام اورمسلمان دشمنی میں امریکہ اس حد تک چلاگیاجس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس طرح اخلاقی اعتبار سے اپنی ساکھ کھوبیٹھا۔ خودامریکہ میں روزاول سے جومہیب نسلی امتیاز چلاآرہاتھااسکے خاتمے کے بجائے اسے امریکہ میں ہواملی ،بڑھاواملااوراسے پروان چڑھایا گیاحالانکہ افریقہ کے کالوں کوامریکہ نے بحری جہازوں میں بھربھرکرخود اپنے ملک میں لایا اور قانونی اعتبارسے وہ امریکہ کے اسی طرح شہری اور باشندے بن گئے جس طرح سفیدفام ہیں ۔نسلی امتیاز کوجاری رکھتے ہوئے امریکہ قانونی ساکھ کھو بیٹھا۔ اب اپنے چہرے سے جمہوریت کا جھوٹا نقاب اتارکر رہی سہی کسربھی نکال دی اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایک امریکی صدرنے امریکی الیکشن میں دھاندلی کے الزام لگاکر متنازعہ بنادیا ہے اوراس طرح امریکہ اپنے نظام جس کاوہ ڈھنڈورا پیٹ رہاتھاکی ساکھ بھی مٹی میں ملا دی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے ووٹوں کی گنتی میں مبینہ دھاندلی اور نتائج پر سوالیہ نشان لگانے کے بعد عالمی سطح پر امریکی نظام مضحکہ خیز بن چکا ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے دھاندلی کے الزامات سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ امریکی نظام کا کوئی معیار نہیں۔ پوری دنیاکی نظریں امریکی میڈیاپرٹکی ہوئی ہیں جو امریکی نظام حکومت زوال پذیر ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔ ٹرمپ کی ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگانے اور ایک دھماکا خیز صورتحال پیداکرنے سے صاف دکھائی دے رہاہے کہ امریکہ ایک بڑے بحران کی طرف جا رہاہے اورامریکہ نے وہ خط امتیاز ختم کر دیا جو الیکشن کے حوالے سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں پایاجاتاتھااوراب امریکہ اسی صف میں کھڑاہوگیاکہ جس صف میں رہتے ہوئے ترقی پذیرممالک انتخابات میں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات اور نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے گھتم گھتاہوتے ہیں۔ ٹرمپ جس انداز میں الیکشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے، ترقی پذیرممالک میں اس کی ایک پرانی روایت چل رہی ہے۔امریکی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگنے سے امریکہ میں اب ایک ایساشدید تنازع جنم لے سکتاہے جوامریکہ کے عوام کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتاہے اوران کے درمیان پائے جانے والے رنگ ونسل کی تقسیم کی خلیج مزیدگہری ہوجائے گی۔ امریکہ میںرنگ ونسل کے تعصب میں جلے بجھے عوام انتہائی درجے پر ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح سڑکوں اورچوک چوراہوں پرنکل آئیں گے کہ جس سے تیسری دنیاکے ممالک کے عوام ’’الحفیظ والامان ‘‘کہتے ہوئے کانوں کوہاتھ لگا کر پناہ مانگیں گے ۔ ٹرمپ کی طرف سے الیکشن کوغیر شفاف قراردینے سے امریکی اعتبارکوناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ امریکی صدارتی الیکشن کے دوران ٹرمپ کے کردار و عمل نے امریکہ میں سیاسی اور سماجی تقسیم کی خلیج اتنی گہری ہوجائے گی جس کا پاٹناکسی کے بس کی بات نہیں ہوگی اوراس خلیج اوراس تقسیم کو ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حمایتی گہری بناتے چلے جائیں گے۔ ٹرمپ کے حمایتی اس قدر اندھے اوربہرے ہیںکہ ٹی وی پرایک عورت کوبارباردکھایاجارہاہے جس کے حوالے سے کہاجارہاہے کہ وہ ٹرمپ کی روحانی مشیر ہیں دھمال ڈالے ہوئے کہہ رہی ہے جیت ٹرمپ کی ہی ہوگی کیونکہ فرشتے اسے جتوانے کے لئے آچکے ہیں ۔فرشتوں سے اس عورت کا کیا مراد ہے یہ معلوم نہیں اگر پاکستان کے فرشتے اس کا مراد ہے توپھر ہم سجھ سکتے ہیں کہ وہ کن کوفرشتے کہتی پھرتی ہے ۔بہرکیف! مورخ لکھے گاکہ ٹرمپ نے امریکی نظام کوطشت از بام کردیاہے۔ یہ ٹرمپ کا ہی کیادھراماناجائے گاکہ اس نے الیکشن عمل کوایک بحران میں تبدیل کردیا ، جبکہ اسے قبل نسلی امتیاز میں بہت زیادہ اضافہ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی، شخصی کمزوریوں کے سبب پیدا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ شکست کھاگئے اور بائیڈن صدارتی منصب کے لیے منتخب ہو گئے تو کیا موجودہ امریکی مسلم کش پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں واقع ہونگی ۔اس کاجواب نفی میں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لہجے اورباڈی لینگویج میںمعمولی سا فرق آئے لیکن امریکہ اسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے جو پالیسیاں ترتیب دے چکاہے اور جو منصوبہ بندی کرچکاہے توچہرے بدلنے سے وہ سب کچھ نہیں بدل سکتا۔جنوبی ایشیائی خطے میں افغانستان کی صورتحال کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہاں سے امریکہ اپنی وضع شدہ پالیسی کے تحت اپنی فوج واپس بلالے گا چاہے یہ ٹرمپ ہوں یابائیڈن۔ دونوں نے امریکہ کے مفاد میں کرنا تھا ۔ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات میں جورول ادا کیااسے اس حوالے سے مزیدرول اداکرنے کوکہاجائے گا۔ امریکا اور پاکستان افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کے تناظر میں اتحادی ہیں۔ اب جو بائیڈن آئیں یا ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنیں، افغانستان کے حوالے سے پاک امریکی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی گی۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے ہیں۔ یہ’’ انڈو پیسیفک ریجن‘‘ میں ایک نیٹو جیسے اتحاد کے قیام کی کوشش میں ہیں۔ جس کا مقصد چین کو اس خطے میں محدود رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس میں بھارت امریکہ کولہو کا بیل بن چکاہے امریکہ چین کے حوالے سے بھارت سے کام لیتارہے گاکیونکہ بھارت پوری طرح امریکی جھانسے میں پھنس چکاہے ۔مشرق وسطی میں بھی امریکہ دھوکہ دہی کی پالیسی پرگامزن رہے گااورکشمیرکے حوالے سے بھی وہ منافقت کی ڈگرپرچلتارہے گا۔