بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دی گئی دعوت افطار میں اپوزیشن جماعتوں نے عیدالفطر کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق احتجاج کے لئے حکمت عملی ترتیب دینے کی خاطر مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ اپوزیشن کی بعض چھوٹی جماعتوں کا خیال ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کی کوکھ سے اپوزیشن کا نیا اتحاد جنم لے گا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عوام مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں جس پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کیا جائے گا۔ دوسری طرف مریم نواز شریف نے اپوزیشن جماعتوں کے مابین مشاورت کو میثاق جمہوریت میں بہتری کا ذریعہ قرار دیا۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطے اور قومی مسائل پر مشاورت جمہوری نظام کی توانا حیثیت کا پتہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی اور کوئی خوبی یاعلامت بھلے کسی کو یاد نہ ہو مگر حکومت گرانے اور بنانے کے لئے مشاورت کا سلسلہ ہمیشہ زور شور سے جاری رہتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ ان کے والد اسی جماعت کے شریک چیئرمین ہیں۔ دوسری طرف مریم نواز مسلم لیگ ن کی نائب صدر ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے چچا زاد حمزہ شہباز افطار پارٹی میں شامل ہوئے۔ حمزہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔ باقی جو رہنما شریک دعوت تھے ان کی اکثریت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سابق حکومتوں میں ان کی اتحادی رہی ہے۔ سو یہ افطار دعوت ایک طرح سے سابق حکومتی اتحادیوں کا اجتماع تھا۔بلا شبہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں سے لے کر یوٹیلیٹی بلز تک میں ہونے والے اضافے نے عام آدمی کی مشکلات دوچند کر دی ہیں۔ مالیاتی مسائل کی بڑی وجہ بیرونی قرضوں کے وہ کوہ ہمالیہ ہیں جو سابق حکومتوں نے گزشتہ دس برس کے دوران پاکستان کی کمر پر لاد دیے۔ سابق حکومتوں کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پی پی کے دور اقتدار میں حج سکینڈل‘ رینٹل انرجی سکینڈل اور غیر قانونی بھرتیوں کے معاملات سامنے آئے۔ حج سکینڈل کے ذمہ داروں کو سزا سنائی جا چکی ہے۔ مسلم لیگ ن بطور اپوزیشن پیپلز پارٹی کی کرپشن پر جو کچھ کہتی رہی وہ آن ریکارڈ ہے۔ خصوصاً آصف علی زرداری کے متعلق ان کی رائے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ کا سابق دور حکومت ہے جس میں نندی پور‘56کمپنیاں ‘ لاہور عبدالحکیم موٹر وے‘ پی آئی اے بدانتظامی‘ بھرتیوں میں بے ضابطگی۔ ریکارڈ جلانے کے الزامات اور ماڈل ٹائون جیسے سانحات ہیں جن سے ن لیگ کا بطور ایک جمہوری سیاسی اور عوامی کردار سوال کی زد میں آ جاتا ہے۔ تحریک انصاف جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر مرکز‘ پنجاب اور کے پی کے میں حکومت بنانے کے لائق ہوئی۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی۔ سندھ میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔تحریک انصاف پہلی بار حکومت میں آئی ہے۔ کچھ خرابیوں کا تعلق ناتجربہ کاری سے ہوتا ہے۔ ایسی خرابیاں وقت کے ساتھ ساتھ اصلاح کے عمل سے گزرتی رہتی ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد بیورو کریسی سے کام لینے کے ضمن میں تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری سامنے آئی ہے۔ خارجہ تعلقات‘ بھارت سے تعلقات‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اقدامات‘ افغانستان سے امریکی انخلا کے معاملات میں پاکستان کا کردار اور ملک کو درپیش معاشی مسائل ہیں جن سے تحریک انصاف نبرد آزما ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد سعودی عرب‘ چین‘ متحدہ عرب امارات‘ ملائشیا اور ایران کے دورے کئے ہیں۔ ان دوروں کے نتائج عمومی طور پر حوصلہ افزا ہیں مگر اگلے تین سال کے دوران عالمی اداروں کو 27ارب ڈالر کے قریب قرض کی رقم واپس کرنے کا کوئی انتظام سردست دکھائی نہیں دے رہا۔ جن حکومتوں نے یہ قرض لیا تھا ان کی قیادت ساری ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد کر کے اپنی جان چھڑا رہی ہے کہ عمران خان ریاستی نظام سنبھال نہیں پا رہے۔اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان کئی شدید اختلافات ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ پیپلز پارٹی کی مفاہمتی سیاست نے پنجاب سے اس کا لگ بھگ وجود ختم کر دیا ہے۔ پنجاب میں پارٹی کارکن مسلم لیگ ن سے مفاہمت یا مشترکہ تحریک کو قطعی قبول نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ ن داخلی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔آثار بتا رہے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے لئے درجنوں مقدمات کی موجودگی میں سیاست کرنا اب ناممکن ہو گا۔ دونوں بھائی اپنی اولاد کو اپنا جانشین بنا کر آگے لا رہے ہیں۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے خلاف مقدمات کی تعداد اور نوعیت ذرا مختلف ہے۔ جس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین کے خلاف نیب میں متعدد مقدمات کی تفتیش ہو رہی ہے۔ جعلی اکائونٹس کے مقدمات میں نیب پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ملوث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ دوسری جانب نواز شریف ابھی تک غیر قانونی اثاثے رکھنے کے الزامات سے بری نہیں ہوسکے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت اکثر و بیشتر نیب کے خلاف دھواں دار بیانات جاری کرتی رہتی ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سابق حکمرانوں کے خلاف نیب کی کارروائی انتقامی ہے تحریک انصاف کی نو ماہ کی حکومت کے خلاف تاحال کرپشن‘ اختیارات سے تجاوز اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی شکایات سامنے نہیں آئیں۔ مسئلہ صرف مالی مشکلات کا ہے جن کے پیدا کرنے میں موجودہ حکومت سے زیادہ سابق حکومتوں کا کردار رہا ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن کا احتجاج دراصل اپنے خلاف قانونی کارروائی کو روکنے کے لئے مزاحمت کے مترادف ہو گا۔ خطے کے حالات اور قومی معاملات جس سمت بڑھ رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے اپوزیشن کا ممکنہ احتجاج قبل از وقت دم توڑ سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن مہنگائی کے خاتمہ کے لئے اپنے تجربات کو تجاویز کی شکل میں پیش کرے۔