انگریزی اصطلاح باڈی لینگویج کا ترجمہ کسی ظالم نے کیا ہی خوب کیا ۔بدن بولی۔بدن بولی یا باڈی لینگویج بدن کی وہ زبان ہے جو الفاظ سے بالا ہوتی ہے۔اسے سنا نہیں جاسکتا البتہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔یہ زبان کسی سے ملاقات کے دوران بے ساختہ طور پہ جاری رہتی ہے اور کبھی کبھی ارادتا اپنا لی جاتی ہے۔ پہلی صورت میں یہ عموماً کسی شخص کی فطری عادات و اطوار کا مظہر ہوتی ہے۔ اس کی عمومی زندگی کی نشست و برخاست ، گفتگو حتی کہ اس کی اخلاقیات بھی اس کی بدن بولی کا حصہ بن جاتی ہیں۔اسی لئے جب وہ کسی سے گفتگو کرتا ہے تو غیر ارادی طور پہ اپنی ا ن حرکات و سکنات کا اظہار کرتا رہتا ہے جو اس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہوتی ہیں۔ماہرین نفسیات اور علم قیافہ بدن بولی کے ان رموز سے واقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ ان سے ملاقات کے لئے جائیں تو وہ آ پ کو اس لمحے سے جانچنا شروع کردیتے ہیں جب آپ ان کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ آپ کا بدن آپ سے پہلے بولنا شروع کردیتا ہے۔ وہ اس وقت بھی بولتا ہے جب آپ خاموش ہوتے ہیں۔ سننے والے یہی خاموشی سنتے ہیں۔محبت کرنے والوں کا تو کام ہی یہی ہے ۔محبوب نے، اور وہ محبوب ہی کیا جو منہ لگالے، آج کونسا نیا نخرہ دکھایا۔پرسش احوال کی تو سہی لیکن ایسے جیسے ڈاکٹر پوچھتے ہیں۔ملنے آیا تو چال میں بیزاری سی تھی۔ واپسی پہ البتہ حرام خور ہشاش بشاش تھا۔آج انگلی میں سرخ عقیق کی وہ انگوٹھی نہیں تھی جو سالگرہ پہ تحفہ کی تھی۔ اس کی جگہ سستے فیروزے کی گھٹیا سی انگوٹھی پہن رکھی تھی جو فٹ پاتھ پہ چرب زبان نگ فروش بیچتے ہیں۔پوچھا تو صاف ٹال گیا ، تنک کرکہنے لگا تنگ ہوگئی تھی۔ بھلا انگوٹھی بھی کبھی تنگ ہوئی ہے ،کہیں خود تنگ تو نہیں آگیا۔انگلی نہ ہوئی توند ہوگئی۔پھیلتی ہی جارہی ہے۔ کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہے ضرور جو بتا نہیں رہا۔ کہیں اور آنکھ تو نہیں لڑا بیٹھا۔ ایک آنکھ میں سرمہ بھی لگا رکھا تھا۔وہی والی لگالی ہوگی۔ اب نام لے کر پوچھا کہ کس سے تو یہ تو ہاتھوں ہاتھ نیا ٹارگٹ دینے والی بات ہے۔ باتیں تو اچھی اچھی کررہا تھا لیکن دھیان کہیں اور ہی تھا۔ بار بار موبائل اٹھا کر چیک کرتا تھا ۔ معلوم ہوتا تھا کسی خاص پیغام کا انتظار ہے۔ یہ انداز راہ بدلنے کے ہیں۔ایسے محبوب کا درست مقام یوں تو وہیں ہے جہاں جعلی عامل اسے بٹھانے کا دعوی کرتے ہیں لیکن کم بخت ٹک کر کہیں بیٹھتا ہی نہیں۔ اب تو دل سے بھی اترنے لگا ہے ۔لعنت بھیجو۔تو یہ وہ بدن بولی ہے جس سے کام لے کر ہرجائی محبوب نے بغیر کچھ کہے جان چھڑالی۔اس کھیل میں جیتتا وہی ہے جو پہل کر گیا۔ جس نے دیر لگائی وہ بدن بولی کو ڈی کوڈ ہی کرتا رہ گیا۔ خوش قسمتی سے محبت دوطرفہ ہے یعنی نئی نئی ہے جب بے پئے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں توایسے فارغ عاشقوں کے بارے میںامجد اسلام امجد کہہ گئے ہیں کہ تخلئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے۔ البتہ اگلے ہی مصرع میںپیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے کہہ کر جہاںتخلئے کی ضرورت کو بالکل غیر ضروری قرار دے گئے ہیں وہیں محبت کی پاکیزگی پہ بھی مہر تصدیق ثبت کرگئے۔ ایک نگاہ تو بھری محفل میں بھی ڈالی جاسکتی ہے اور کافی بھی ہوتی ہے اس کے لئے تخلئے کی کھکھیڑ پالنے کی کیا ضرورت ہے۔خیر شاعر شادی شدہ ہو تو اسے قافیے کے علاوہ کئی خانگی مجبوریا ں لاحق ہوتی ہیں یوں آزاد نظم اتنی بھی آزاد نہیں رہتی محبت کرنے والے البتہ کسی کے باندھے نہیں بندھتے۔ وہ ایک دوسرے کی ان کہی باتیں نہ صرف سنتے ہیں بلکہ ان کا ان دیکھا جواب بھی دیتے ہیں۔ایک نظر، ایک تبسم ، ایک لمس، ایک آنسو۔بدن بولی وہ زبان ہے جس کا لہجہ بولنے والے کی تربیت اور اخلاقیات پہ منحصر ہے۔ اردو زبان میں لفظ چال چلن ایسے ہی ایجاد نہیں ہوا۔ چال کا چلن سے گہرا تعلق ہے۔ اوباش کی چال، شریف آدمی کی چال سے مختلف ہوتی ہے۔عالم کی چال جاہل سے الگ پہچانی جاتی ہے۔چھوٹے اور جمے ہوئے قدم اٹھانے والا شخص ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ لاپرواہی اور بے دھیانی سے چلنے والا قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ بات کرتے ہوئے مخاطب کی آنکھوں میں دیکھنا اعتماد کی نشانی ہے۔ ہاتھ ہلانا اور مسکرا کر بات کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیںاس پہ یقین رکھتے ہیں۔ بے تکلفی سے بات کرنے والا عموما صاف دل ہوتا ہے۔ الفاظ اور لہجہ بنا کر بولنے والوں کو میں نے اکثربے حس اور سفاک پایا ہے۔بقول مرشدی یوسفی جس شخص کو شدید غم میں بھی درست شعر پڑھتے سنو اس سے ہوشیار رہو۔غرض ایسی لاتعداد علامات ہیں جو بدن بولی سے انسان کی شخصیت، کردار اور تربیت کو ظاہر کرتی ہیں ۔عالمی سیاست میں بدن بولی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اس کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے۔سفیروں کی زبان اور لہجہ اسی لیے نپا تلا ہوتا ہے ۔وہ اپنے ملک کے نمائندہ ہوتے ہیں اور سرکاری موقف ایسے الفاظ میں بیان کرتے ہیں جنہیں روایتی کہا جاسکتا ہے۔ ستر سالوں سے ہم مخصوص الفاظ اور اصطلاحات اسی لئے سنتے آرہے ہیں کیونکہ نصاب ایک ہے۔ان کی ملاقات کے انداز بھی عام لوگوں سے ملاقات سے مختلف ہوتے ہیں جو میڈیا کو جاری تصاویر میں بالکل ایک جیسے نظر آتے ہیں۔باہمی دلچسپی کے امور پہ تبادلہ خیال کرتے ہوئے مسکراہٹوں کے تبادلے تک ایک ہی لائن اور لینتھ کے ہوتے ہیں۔ ان میں اتنی یکسانیت ہوتی ہے کہ آپ محض چہرے اور نام بدل کر انہیں اخبارات کو جاری کردیں تو اڑتی چڑیا کے پر گننے اور کترنے والے صحافیوں کو پتا بھی نہ چلے۔وزارت خارجہ کے ترجمان حساس نوعیت کے بیانات جاری کرتے ہیں اور اکثر میں نے ان بیانات کے بین السطور پیغامات کو بالکل درست طور پہ سمجھا ہے۔ سیاست دانوں کو عوامی ہونا پڑتا ہے چاہے انہوں نے کبھی اپنے مزارع کو منہ نہ لگایا ہو۔جب کوئی سیاست دان وزیر اعظم بن جاتا ہے تو اس کی چال ڈھال بھی بدل جاتی ہے۔ جب وہ ایسے بدل جائے جیسی کہ نہیں بدلنی چاہئے تو ساتھ بیٹھے سپہ سالار کے چہرے پہ تناو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ جب دونوں کی ایک دوسرے سے نہ بنتی ہو تو باہمی ملاقات میں دونوں کی بدن بولی سب کہہ ڈالتی ہے۔ وہ ایک ایسا شادی شدہ جوڑا نظر آتے ہیں جنہوں نے اولاد کی خاطر ایک دوسرے کو برداشت کررکھا ہو۔ ایسی بہت سے تصاویر آپ نے دیکھی ہونگی اور جان گئے ہونگے کہ آپسی تعلقات کس نہج پہ ہیں۔ ذرا وہ تصاویر نکالئے اور موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ جنرل قمر باجوہ کی پہلی ملاقات کی تصویر دیکھئے۔ فرق صاف ظاہر ہوگا۔ ایک طرف پراعتماد، باوقار اور سراپا انکسار وزیراعظم عمران خان ہیں تو دوسری طرف شفقت بھری مسکراہٹ اور اطمینان سے بھرپور بدن بولی کے ساتھ جنرل باجوہ ہیں۔عمران خان یوم دفاع پہ اپنی تقریر میں یہ تذکرہ نہ بھی کرتے کہ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں کوئی تناو نہیں تب بھی یہ عشق اورمشک کی طرح چھپائے نہ چھپتا۔ صدر ٹرمپ نے جب منصب صدارت سنبھالا تھا تو ان کی باڈی لینگویج دیکھنے والی تھی۔روایتی امریکی صدور کی طرح عوام کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلانے کی بجائے وہ رنگ میں فتح سے نشے میں چور کسی پہلوان کی طرح مکہ لہراتے نظر آئے جو اس بات کا اعلان تھا کہ اب وہی ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ عمران خان نے بطور متوقع وزیر اعظم جو پہلی تقریر کی وہ ایک منکسر المزاج ،شریف اور نجیب شخص کی تقریر تھی۔ ان کی بدن بولی سے ذمہ داری عیاں تھی۔ بطور وزیر اعظم اپنے پہلے خطاب میں وہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے جو اس بات کا اعلان تھا کہ وہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی عوام سے الگ نہیں ہوئے اور اپنی سادگی مہم کی شروعات وہ اپنی ذات سے کرنا چاہتے ہیں۔ان کے چاہنے والے ان کی بدن بولی کو اسی طرح سمجھتے ہیں جیسے محب اپنے محبوب کے تیور پہچانتا ہے۔امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے وقت بھی وہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے۔ وہ کمرے میں بعد میں داخل ہوئے جہاں معزز مہمان ان کے منتظر تھے۔ ان کے کمرے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی مائک پومپیو کے چہرے پہ حیرت صاف دیکھی جاسکتی ہے جسے انہوں نے اپنی مسکراہٹ سے چھپانے کی کوشش کی اور مصافحہ کرتے وقت تھوڑا جھک گئے۔ساتھ کھڑے جنرل سے مصافحہ عمران خان نے کرنا ضروری نہ سمجھا البتہ جنرل باجوہ کے توجہ دلانے پہ انہوں نے باقی دو مہمانوں سے مصافحہ کیا ۔ باقی ملاقات میں وہ اپنے فطری اور بے تکلف انداز میں بولتے رہے ، مائک پومپیو انہیں دیکھتے رہے اور جنرل باجوہ زیرلب مسکراتے رہے۔ایک ایسی قوم کے لئے یہ منظر بجا طور پہ خوش کن تھاجس نے اپنے سربراہ مملکت کو عالمی سربراہوں سے ملاقات پہ پرچیاں پڑھتے دیکھا ہو۔کسی قوم کا سربراہ اس کا چہرہ ہوتا ہے۔ہمارا آج کا چہرہ، روشن، پراعتماد اور بے تکلف ہے۔