مکرمی ! عوام کو آج بھی گیس اور بجلی کے جوبل بھرنا پڑ رہے ہیں وہ اْن کی استطاعت سے کہیں باہر ہیں، بجلی کے بلوں نے تو ہر حد ہی پار کر لی ہے، کم یونٹ استعمال کر کے بجلی بچانے کی کوشش کرنے والی مڈل کلاس بھی مشکل میں ہے، بجلی کی قیمت تو بڑھی سو بڑھی اْس پر ٹیکس کی بھرمار ہے،متعلقہ ادارے کچھ بھی کہیں، کوئی بھی تاویل پیش کریں جتنے بھی دعوے کریں کہ گھریلو صارف کے لیے بجلی کے ایک یونٹ کی انتہائی قیمت لگ بھگ 57 روپے ہے لیکن مجموعی بِل کو کل استعمال شدہ یونٹوں پر تقسیم کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بعض افراد کو بجلی کی فی یونٹ قیمت اِس سے دو گنا بلکہ شاید اِس سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ عام آدمی پر یوٹیلیٹی بِلوں کے ذریعے ڈالے جانے والے بے جا بوجھ پر عالمی ادارے بھی پریشان ہیں۔ سرمایہ کاری کا شعبہ غیر موثر ہے اور پالیسی فیصلوں کا محور ذاتی مفاد ہیں۔ ورلڈ بینک نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت بھی کی۔ بینک کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے لائن لاسز کو کم کیا جائے، مقامی قرض موخر کرنے سے بینکنگ سیکٹر اور سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ ایک چشم کشا رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق لگ بھگ تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اوور بلنگ میں ملوث پائی گئی ہیں۔ نیپرا کو ٹیکسوں کی شرح پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ صارف کو تمام تر ٹیکسوں کے ساتھ فی یونٹ کیا قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے- زائد اضافے کا اطلاق بھی ہو چکا ہے، نگران حکومت کو عام آدمی پر پڑے اِن یوٹیلٹی بِلوں کے بوجھ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ (قاضی جمشید صدیقی لاہور)