آغاز باراں ہے ایک بارش نے لاہور ڈبو دیا تھا اور اب پسینے نے ہمیں شرابور کیا ہوا ہے موسم ایک حبس کی سی کیفیت ہے‘ ایسی کہ ’’وہ حبس تھا کہ لُو کی دعا مانگتے تھے لوگ‘‘ اوپر سے سیاست کی صورت حال بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ ادھر بھی مطلع کھل نہیں رہا۔ جب زیادہ حبس بڑھ جائے تو یہ بادوباراں کا پیش خیمہ بھی ہوتا ہے۔ ہم بھی منتظر ہیں آپ یقین مانیں یا نہ مانیں کہ ابھی میں سطور لکھ رہا تھا کہ دروازوں کے پٹ بجنے لگے میری کھڑکی کے سامنے کھڑے پودے زور زور سے ہلنے لگے ہیں۔ فراز یاد آ گیا: یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں بہرحال ادھر تو مثبت تبدیلی نظر آ رہی ہے اللہ کی اپنی مشیت ہے موسم کوئی بھی ہو اس میں ایک خوبصورتی اور دل آویزی تو ہوتی ہے مگر ہر ایک میں ایسے لمحے آتے ہیں جب اس کی شدت ہمیں اپنی اوقات دکھا دیتی ہے کبھی ہم حدت کے باعث اپنے جسم سے بھی اوازار ہو جاتے ہیں اور کبھی سردی سے ہمارے دانت ہی نہیں بجتے۔ کپکپی بھی چھوٹ جاتی ہے کبھی پت جھڑ ہمیں اداس بھی کر دیتی ہے اورپھر بہار میں زخم نکل جاتے ہیں۔ برسات تو آنکھ بھی بھگو دیتی ہے ویسے بھی یہ تو لاکھوں کا ساون ہے‘ ابھی کل ہی میں اشرف شریف کی تحریر پڑھ رہا تھا‘ آپ اسے کالم کہہ لیں جو کافی بھیگا ہوا تھا اور سرسرگم میں تھا۔ شاعرتو ایسے ہی سوچتا ہے مجھے یاد ہے اورینٹل کالج میں طلباء کے ساتھ کھڑے تھے بارش اتری تو فی البدیہہ غزل کہہ دی: ابر اترا ہے چار سُو دیکھو اب وہ نکھرے گا خوبرو دیکھو ایسے موسم میں بھیگتے رہنا ایک شاعر کی آرزو دیکھو برسات کے موسم کے ساتھ تو ہمارا بچپن بھی بندھا ہے کیسے ہم کیچڑ سے بے نیاز بارش کے پانی میں سے چھنا کے اڑاتے گزر جاتے تھے پھر ان میں کاغذ کی کشتیاں ڈالتے‘ کشتیوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی دوڑتے اور دیکھتے کہ کس کی کشتی ڈوبتی ہے اور کس کی بچتی ہے۔ بارش کے پانی پر پڑنے والے بلبلے کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں وہ لوگ جو پانی پر چند سیکنڈ کے لیے چلتے ہیں اور پھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ اچانک بارش کا تیز برسنا سب کچھ جل تھل ہو جانا۔ اس میں سب کے الگ الگ تجربات ہیں مثلاً میں اک ایسی بدلی ہوں جو بن برسے برسات میں گم‘ شہزاد احمد نے ایک اور نظر سے دیکھا: چوٹیاں چھو کر گزرتے ہیں برستے کیوں نہیں بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے اساتذہ نے تو برسات کی بہاروں کا بھی ذکر کیا ہے۔ گویا بہار تو کیفیت ہوئی۔ مجھے یاد ہے کراچی کے سمندر میں ایک مرتبہ میں نے بارش کا لطف اٹھایا کشتی رواں تھی اور اوپر نیچے پانی ہی کی حکمرانی تھی آنکھوں کے سارے منظر دھندلا گئے تھے تبھی تو پنجابی کے شعر وارد ہوئے: عیداں تے شبراتاں ہوون روح کے گلاں باتاں ہوون ٹھنڈا چپ سمندر ہووے اتوں فر برساتاں ہوون وہ کیسے لوگ ہیں جو بارش سے ڈر کر اندروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں سیاسی منظر کی تیزی دیکھ کر پھر دھیان برسات ہی کی طرف لوٹتا ہے کہ اسی موسم میں ایک مخلوق ٹرانے لگتی ہے اور ان کے ساتھ کچھ زیر زمین رہنے والے حشرات الارض بھی نکل آتے ہیں بہرحال اس موسم کا کچھ اعتبار نہیں: گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر مری آنکھوں کا پردا تھا مگر کچھ لوگ تو امجد اسلام امجد کے اس مصرع کی تصویر بنے ہوئے ہیں’’وہ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں‘‘ ویسے ہر کام میں انسان کی کوئی بہتری ہی ہوتی ہے ہو سکتا ہے کہ افسوس کرنے والوں کی چھتیں شاید اس بارش کی متحمل ہی نہ ہو سکتیں ویسے بھی یہ مصنوعی بارشوں کا دور ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہ بادل آئے ہیں یالائے گئے ہیں کہاں برسائے جائیں گے اور کہاں نہیں بارش کوئی بھی ہو اس میں مچھلیاں تو پیدا ہونگی مگر بعض کے ہاتھ صرف مینڈک ہی آئیں گے ویسے بارش کے بھی کئی رنگ ہیں کبھی یہ غیر محسوس بُور کی طرح‘ کبھی پھوار بن جاتی ہے کبھی کن من کبھی رم جھم‘ کبھی موسلادھار اور کبھی طوفانی بن جاتی ہے۔بارش جیسی بھی ہو اس میں آم ضرور ہوں اور بقول غالب میٹھے ہوں اور کافی زیادہ۔ آپ بارش میں بھیگتے ہوئے کافی کے جگ سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مگر وہ میٹھے پوڑے اور میٹھی ٹکیاں جو کبھی ہمارے گھروں میں بنتی تھیں آپ نے کبھی دھوپ میں بارش دیکھی ہے میں نے دیکھی تھی: لب پر ہے انکار کسی کے اورہے دل میں خواہش بھی ان کی آنکھوں میں دیکھو تو دھوپ بھی ہے اور بارش بھی ویسے غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ بارش ایک پیغام بھی ہے کہ زندگی بارش کی طرح خرچ کر دو سب کو فائدہ پہنچائو‘ سوکھی زمین کو تر کر دو۔ بارش سے سب خشک و تر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اب کیا کیجیے کہ مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات‘ ایسے موسم میں جب ہوا رک جاتی ہے تو حبس پیدا ہوتا ہے ایسے میں اگر لوڈشیڈنگ اپنے عروج پر پہنچ جائے تو کیا ہو گا۔ ساتھ پانی بھی فشوں تو صاحب ہم بڑے عذاب میں ہیں نہ رات کا چین اور نہ دن کو سکون۔ رات کسی بھی وقت لائٹ چلی جاتی ہے ہم فٹ بال کا سیمی فائنل پوری طرح نہیں دیکھ سکے اور پھر سحر کے ساتھ ہی بجلی چلی گئی تھی دو گھنٹے سے نہیں آ رہی باہر آنگن میں بیٹھ کر کالم لکھ رہا ہوں معلوم نہیں ہماری نگران حکومت کیا کر رہی ہے ایک کام اس نے آتے ہی کیا کہ پٹرول ریلیف دیا جو وہ پندرہ روپے فی لیٹر بڑھا کر 5روپے فی لیٹر کم کر دیے اب لوڈشیڈنگ کا سلسلہ چل نکلا ہے اب تو ان کے سامنے نواز شریف کی آمد کا چیلنج ہے ساری مشینری ادھر لگی ہوئی ہے پتہ نہیں جو بھی آتا ہے ہمیں اور رلا جاتا ہے: عمر گزری ہے اور دربدراپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے