وزیراعظم عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب غیرمعمولی، نہایت پراثر اور دل کو چھو لینے والا تھا۔ ایک ایسی تقریر جو کئی عشروں بعد سننے کو ملتی ہے۔ بائیس تیئس سال مجھے صحافت میں ہوگئے، اس سے پہلے کالج یونیورسٹی کے زمانے سے سیاسی تقریریں سنتے آئے ہیں، ہر نئے حکمران کے قوم سے خطاب کو پوری سنجیدگی، دلچسپی اور غور سے سنا، بعد میں اسے جانچنے، پرکھنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ بیشتر اوقات مایوسی ہوئی۔ عمران خان کی تقریر کا درست اندازہ تو چند ماہ بعد ہی ہوگا، مگر دو باتیں اس میں نئی اور منفرد ہیں۔ رات کو تقریر ختم ہونے سے آج سہہ پہر تک سوشل میڈیا پر کئی ایسی پوسٹیں اور ٹویٹس دیکھے جو عمران خان پر تنقید کرنے والوں کی طرف سے تھے ۔ ہر ایک نے ایک خاص بیانیہ آگے بڑھانے کی کوشش کی ، ایک فقرہ لگتا ہے سوچ بچار کے بعد تخلیق کیا گیا ،’’ایسی بہت سی تقریریں پہلے بھی سنی ہیں، یہ بھی ویسی ہی تھی، عمل اگر ہو تو دیکھیں گے۔‘‘ یہ بات درست نہیں ۔ اس حد تک تو سچ ہے کہ ہر حکمران اقتدار سنبھالتے ہی لفاظی کا جادو دکھاتا ہے، لیکن عمران خان کی تقریر میں بعض ایسے بنیادی ایشوز پر بات ہوئی، جو پہلے کبھی کسی نے نہیں کیں۔ عوام کے بنیادی مسائل پر فوکس کیا گیا، پینے کے پانی کا مسئلہ، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، عام آدمی کی مشکلات میں کم کرنے، ناقص خوراک کی وجہ سے جن پینتالیس فیصد بچوں کے دماغ نشوونما نہیں پا رہے، ان کی بات کی گئی۔ میاں نواز شریف ، زرداری صاحب کو تو اس بیماری کا نام تک بھی نہیں آتا ہوگا، جس کے بارے میں عمران خان نے تصاویر دکھا کر سمجھانے کی کوشش کی۔ پولیس میں ریفارمز لانے، سول سروس کا سٹرکچر ٹھیک کرنے، سرکاری سکولوں پر پیسہ لگانے،دو ڈھائی کروڑ بچہ جو سکول سے باہر ہے، اسے تعلیم دینے کی منصوبہ بندی، مدارس کے طلبہ کے بارے میں ہمدردانہ رویہ … یہ سب ایسی باتیں ہیں جو پہلے اس انداز میں، اتنی وضاحت، قطعیت اور باقاعدہ حل کرنے کے پلان کے ساتھ نہیں کی گئیں۔ اگر مدارس کے طلبہ کے لئے کچھ کیا گیا تو مذہبی جماعتوں کی ساری ٹھیکے داری ختم ہوجائے گی، اس سے بڑھ کر ان لاکھوں طلبہ کی زندگیاں سنور جائیں گی۔ اس حوالے سے اہم نکتہ یہ ہے کہ عمران خان نے مدارس پر کچھ مسلط کرنے کا نہیں کہا، صرف ان طلبہ کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی اور طلبہ میں سے جو لوگ عصری تعلیم حاصل کرنا اور زندگی میں آگے جانا چاہتے ہیں، انہیں مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جو لوگ دین کا کام کرنا چاہ رہے ہیں، ظاہر ہے وہ تو کرتے رہیں گے۔ یہ ایک خاندان کے بڑے کی جانب سے کسی پیچھے رہ جانے والے بچے کے مستقبل کے لئے سوچ بچار کرنے جیسی بات تھی، اسے درست تناظر میں لینے کے بجائے منفی پروپیگنڈہ شروع کرنا دینا تو صریحاً ظلم ہے۔ عمران کی تقریر میں دوسری منفرد بات یہ تھی کہ صرف وعدے اور لفاظی نہیں کی گئی بلکہ عمل کا آغاز کر دیا گیا۔ وزیراعظم ہائوس میں رہنے کے بجائے ملٹری سیکرٹری کے مکان میں رہائش اختیار کرنا، سو ا پانچ ملازمین میں سے صرف دو ملازم رکھنا، اسی گاڑیوں جن میں سے تینتیس بلٹ پروف ہیں، ان میں سے صرف دو گاڑیاں اپنے استعمال میں لانے کا فیصلہ عمل ہی تو ہے۔اور عمل کسے کہتے ہیں؟ہاں کل کو علم ہو کہ نہیں عمران خان نے جھوٹ بولا اور اسی گاڑیاں بدستور استعمال میں لائی جا رہی ہیں، اس کے بھانجے بھتیجے سرکاری گاڑیاںاسلام آباد کی سڑکوں پر بھگاتے پھرتے ہیں، تب اعتراض بنتا ہے۔ ایک سینئر صحافی سے بات ہو رہی تھی، کہنے لگے کہ اکہتر میں جب مغربی پاکستان ہی باقی ماندہ پاکستان بن گیا تو بھٹو صاحب نے ایک تاریخ ساز تقریر کی اور قوم میں نیا حوصلہ جگایا۔ اس تقریر کے سنتالیس سال بعد ویسی پراثر، زوردار اور پرامید تقریر سنی۔ مجھے خوشی اس بات پر ہے کہ بنیادی ایشوز پر بات کی گئی، ان کی اہمیت اجاگر کی اور فوری منصوبہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پولیس میں اصلاحات، تعلیم، صحت، پینے کے پانی، ماحولیات، شجرکاری، ٹیکس نظام کو درست کرنے جیسے معاملات میں کئے گئے اعلانات میں سے اگر تیس چالیس فیصد پر بھی عمل درآمد ہوا تو انقلاب برپا ہوجائے گا۔شاید یہی وہ خوف ہے جو اپوزیشن کو بے چین اور مضطرب کر رہا ہے۔عمران خان نے وزارت داخلہ اپنے پاس رکھی اور مقصد کرپٹ عناصر کا احتساب ہے۔ اس پر بعض دوستوں نے لگاتار کئی پوسٹیں کیں کہ اگر منی لانڈرنگ والوں کو پکڑا، احتساب کیا تو پھر پوری اپوزیشن یکجا ہو کر احتجاج کرے گی، حکومت کو کام نہیں کرنے دے گی۔ یہ بات پڑھ اور سن کر حیرت ہوتی ہے۔وہ کون سامحب الوطن شہری ہے جسے کرپٹ عناصر کے احتساب، لوٹی ہوئی رقم واپس لانے اور منی لانڈرنگ جیسے ملک کو کھوکھلا کرنے والے جرم کے مرتکب افراد سے ہمدردی ہو؟ایسی سیاست پر تین حرف بھیجنے چاہیئیں، جس میں کرپٹ عناصر کا احتساب نہ ہو اور لٹیروں کو ملک لوٹنے کی کھلی اجازت دی جائے۔ پچھلے عشروں سے یہی تو ہوتا آیا ہے۔ اگر منی لانڈرنگ میں آصف زرداری اور ان کے دوست ملوث ہیں تو ان کا بے رحم احتساب ہونا چاہیے۔ نیب کے شکنجے میں اگر شہباز شریف اور ن لیگ یا کسی بھی دوسری جماعت کے لوگ آتے ہیں تو ان پکڑنا اور کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ اس میں بس ایک بات کا خیال رکھا جائے کہ اگر ایسے لوگ پی ٹی آئی میں ہوں تو انہیں بھی نہ چھوڑا جائے او ر احتساب کے عمل کو کسی سیاسی فائدے کی خاطر التوا میں نہ ڈالا جائے۔ عزیر بلوچ جیسے اگر پکڑے گئے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، انہیں کسی ’’مشکل‘‘وقت کے لئے محفوظ رکھنا انصاف نہیں۔ اس کا امکان موجود ہے کہ اگر عمران خان نے احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا ، لوٹی دولت واپس لانے کی کوشش کی تو اپوزیشن اس پر یکجا ہو کر حملہ آور ہوجائے۔ وہ وقت حکومت اور نومنتخب وزیراعظم کو سپورٹ کرنے کا ہو گا۔ عمران خان کے مثبت ایجنڈے کے اعلان کے بعد اس حوالے سے غیر جانبدار ہونا ایک طرح کی منافقت ہوگی ، اس ایجنڈے کی کھل کر سپورٹ کرنا چاہیے۔ یہ ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھنے کے بجائے کھل کر اچھائی اور مثبت ایجنڈے کی حمایت میں وزن ڈالنے کا وقت ہے۔ اس تقریر کے حوالے سے کئی دوستوں سے بات ہوتی رہی۔ ہر ایک متفق تھا کہ عمران خان کا یہ خطاب اگر کسی کے دل کو نہیں چھوتا توا سے اپنا جائزہ لینا چاہیے۔بغض اور نفرت نے ان کے دل پر سیاہی کی گہری تہہ بچھا رکھی ہے، ورنہ ایسے مثبت ایجنڈے کی بات کیسے دل پر اثر نہ کرے؟ہاں وہ عمران خان سے اس پر عمل کا مطالبہ ضرور کریں، مسلسل نظر رکھیں او ر حکومت کو اپنے وعدوں سے ہٹنے نہ دیں۔ یہ معقول رویہ ہوگا۔ اس کے بجائے تقریر میں فوری طور پر کیڑے نکالنے، معمولی باتوں کا بتنگڑ بنانے اور خواہ مخواہ تقریر کے خلاف منفی باتیں پھیلانا نامناسب رویہ ہے۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو، اسے چند ماہ تو اپنی سنجیدگی اور کمٹمنٹ ثابت کرنے کے لئے دینے چاہئیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کا ٹریک ریکارڈ بہت خراب ہے۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو کے سامنے آنے کے بعد نئی سندھ حکومت کو چھ ماہ، سال کے لئے دیکھنا چاہیے، اگراچھا کام کرے تو سراہا جائے ، ورنہ مثبت تنقید شروع ہو۔ سندھ حکومت کے آتے ہی اس پر تنقید کرنا درست نہیں، یہی رویہ وفاقی حکومت اور باقی تینوں صوبوں میں اپنانا چاہیے۔ محترم عبدالشکور صاحب نے میری پوسٹ پر کمنٹ کیا۔ ان کی وابستگی ماضی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے رہی، زمانہ طالب علمی میں ناظم جامعہ پنجاب رہے، سنجیدہ آدمی ہیں، جماعت اسلامی کا حصہ رہے، آج کل سیاست سے دور رہتے ہوئے الخدمت جیسی بڑی چیریٹی تنظیم کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کئے ہوئے ہیں، عمران خان کی سیاست سے انہیں اتفاق نہیں، مگر بڑے متوازن اور معتدل لہجے میں انہوں نے کمنٹ کیا، لکھتے ہیں:’’تقریر مثبت تھی، متوازن تھی اور کسی تصنع کے بغیر بہت ہی غیر روایتی تھی۔یہ دعا کرنی چاہئے کہ عمران خاں کو اللہ عمل درآمد کا موقع بھی دے اورصلاحیت بھی۔یہ کام مونٹ ایورسٹ کو سر کرنے سے بھی مشکل تر ہے۔ عمران کے ہاتھوں انجام پا جائے تو اور کیا چاہئے۔عمران کی ٹیم کے بارے میں بہت سارے سوالات اور خدشات لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے ہیں اور وہ سب بلا جواز نہیں۔تاہم پْر امید رہنا زندگی کی علامت ہے۔‘‘ عبدالشکور صاحب یا ان جیسے اور بھی بہت سے ایسے ہوں گے جو عمران خان کے ووٹر نہیں، عمران کی ٹیم انہیں زیادہ پسند نہیں،انہیں اس حوالے سے تحفظات ہیں، مگر چونکہ ایجنڈا مثبت ہیں، اس لئے ان کی بات میں دعا کا عنصر موجود ہے کہ کاش ایسا ہوجائے ۔ یہ معقول ، منطقی رویہ ہے۔ عمران خان سے اتفاق نہ کرنے والے کم ازکم اس طرح کا امید افزا موقف تو اپنائیں۔بلا سوچے سمجھے منفی پروپیگنڈہ کرنا خود ان کے اپنے بارے میں بہت سے سوالات پیدا کر رہا ہے۔