ساری خرابی تجزیے میں ہوتی ہے۔ کیسے لوگ ہیں کہ ہر بار ان کا تجزیہ غلط ثابت ہوتا ہے مگر ان کے لہجوں میں دائم وہی اصرار۔ ایک عشرہ ہوتا ہے، ایک ممتاز ٹی وی چینل نے اس موضوع پر مذاکرے کا اہتمام کیا کہ غیرت مندی ایک اعلیٰ انسانی وصف ہے یا نہیں۔ خاکسار کو بھی مدعو کیا گیا۔ عرض کیا، کہ حمیّت قوموں کے لیے جذباتیت کا نام نہیں۔ مسلمان کے اوصاف میں سے ایک جذباتی توازن بھی ہے۔ ایک آدھ نہیں، آٹھ عدد احادیث ہیں، جن میں اعتدال پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کوفکر و تدبر کی اہمیت پہ اس قدر اصرارہے کہ اس کا کوئی طالب علم مقلدِ محض نہیں ہو سکتا۔ سرزمین شام کے نامور مفکر علامہ طباطبائی نے لکھا ہے:اہل دانش کی تین سطحیں ہیں۔ ایک وہ کسی بھی موضوع پر قرآن کریم اور احادیث کو یکجا کر سکے۔ اس سے بہتر جو وہ بغور جائزہ لینے کے بعد، صحیح نتیجہ اخذ کر سکے لیکن ان دونوں کا شمار بھی ’’راسخون فی العلم‘‘ میں نہیں ہوتا۔ عظیم تر سکالر وہ ہے، جو پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں بات کر سکے۔ یہ اقبالؔ تھے، قرآن کریم کے سچے طالب علم اپنے عصر سے پوری طرح آشنا بھی۔ مشرق و مغرب اور تاریخ کے حقیقی ادراک ہی نے آپ کو علمی مجدّد کے مرتبے پر فائز کیا۔اقبالؔ نے یہ کہا تھا: غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا شاعر تو وہ ایسے تھے کہ تاریخ انسانی کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی۔ حسنِ بیان میں اسد اللہ خان غالبؔ کا ہمسر شاید کوئی نہیں۔ اقبالؔ کا اعزاز یہ ہے کہ ان موضوعات پر انہوں نے شاعری کی، کوئی دوسرا شاعر جنہیں چھونے کی کبھی جرأت نہ کر سکا۔ ایک مسلم برصغیر وہ تھا، جس میں وہ پیدا ہوئے، دوسرا وہ جس کی فکری تشکیل میں ان کا کردار شاید کسی بھی معلّم اور مفکر سے زیادہ ہے۔سیاسی مفکر ایسے کہ ہندوستان کے سیاسی فیصلے کا حل انہی نے تجویز کیا۔ ایک دوسرا آدمی، محمد علی تھا، قائد اعظم محمد علی جناح۔ جذباتی توازن کا ایک حیرت انگیز استعارہ۔ بیک وقت انگریزی استعمار، مسلم لیگ سے سو گنا بڑی کانگرس اور قوم پرست مسلمانوں کے خلاف، میدان میں اترے…اور ان سب کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ جس مذاکرے کا ذکر کیا ہے، دوسری طرف اس میں بائیں بازو کے وہ ممتاز دانشور تھے، واقعی ممتاز۔ غیرت کے تصور کا انہوں نے مذاق اڑایا۔ اس وضاحت کو مسترد کر دیا کہ محبت، جذباتیت کا نام نہیں۔ ایک صاحب تو یہیں تک محدود رہے۔ دوسرے جو عام طور پر شائستہ رہتے ہیں، اس دن اکھڑ گئے۔ ناچیز کی وضاحت انہوں نے مسترد نہ کی بلکہ ارشاد کیا: اس لحاظ سے تو آپ کا شمار بے غیرتوں میں کرنا چاہئے۔ عام طور پر گالی کے جواب میں زیادہ صبر نہیں کرتا۔ اس روز توفیق عطا ہوئی کہ خاموش رہا۔ نتیجہ اس کا اچھا نکلا۔ افغانستان کے حوالے سے ہمارے بعض محترم دوست جذباتیت سے نجات کی تلقین کرتے ہیں۔ بالکل بجا۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک ہے:حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ قرآن کریم میں رقم ہے:حکمت جسے عطا کی گئی خیرِکثیر اسے بخشا گیا۔ قوموں کی تقدیر سنور نہیں سکتی، ترجیحات اگر درست نہ ہوں۔ عصری حقائق کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے۔ ایک پہلو مگر حیران کن ہے۔ جذباتیت سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے کبھی کبھی وہ حمیّت سے دستبردار ہونے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ افغانستان میں داخل ہونے کے بعد روسی افواج، پاکستان کی سرحدوں پہ کھڑی تھیں۔ جیسا کہ میجر عامر نے ایک حالیہ انٹرویو میں تفصیل سے بتایا۔ ریاست ہائے متحدہ کے صدر جمی کارٹر نے جنرل محمد ضیاء الحق کو 400ملین ڈالر کی پیش کش کی۔ پانچ برس کے لیے چار سو ملین ڈالر۔ ضیاء الحق کارٹر سے ناخوش تھے۔ ان کا جواب یہ تھا: یہ مونگ پھلی اپنے پاس رکھو۔ یہ ایک گہرا طنز تھا۔ اس لیے کہ کارٹر کی زرعی زمینوں پر مونگ پھلی اگائی جاتی۔جولائی 1979ء میں امریکی صدر نے اسلام آباد کے سفارت خانے کو جنرل ضیاء کے مخالفین کی مدد کرنے کا حکم دیا تھا۔ 27دسمبر 1971ء کو سوویت فوج افغانستان میں داخل ہوئی تو الیکشن ہو چکے تھے۔ دستور مگر یہ ہے کہ نیا صدر 20جنوری کو حلف اٹھاتا ہے۔ ریگن آئے تو خارجہ امور کے مشیر برزنسکی کو اسلام آباد بھیجا۔ ان کا مشورہ بھی یہی تھا کہ افغانستان میں روسیوں کو الجھائے (Engage) رکھا جائے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے کہا:الجھانے کا کیا سوال، ہم انہیں دریائے آمو کے پار بھیجیں گے۔ ان کے سوا جو بے خبر ہیں یا کذب بیانی پر تلے ہوں، سب جانتے ہیں کہ امریکی امداد ڈیڑھ دو برس کے بعد ملی۔ اس سے پہلے برائے نام تھی۔ جنرل محمد ضیاء الحق جو عام طور پر تامل کا شکار رہتے، افغانستان کے بارے میں پوری طرح واضح تھے۔ جیسا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو میجر عامر نے بتایا: جنرل کا خیال یہ تھا کہ افغانستان میں ایک لاکھ سے زیادہ فوج سوویت یونین لا نہیں سکتا۔ بہتر یہ ہے کہ وہیں اس سے نمٹ لیا جائے، گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے، اگر وہ پاکستان میں داخل ہو گیا تو زیادہ قیمت ادا کرنا ہو گی۔ بھنّایا ہوا روسی سفیر جنرل کے دفتر میں داخل ہوا اور اس نے کہا: ساڑھے تین سو برس میں، جہاں کہیں ہم داخل ہوئے، لوٹ کر نہیں گئے۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی اور اس میں پاکستانی مداخلت کے کچھ ثبوت۔ جنرل نے فائل ایک طرف رکھی اور کہا: افغانستان کی بھی ایک تاریخ ہے، کبھی کوئی یہاں ٹھہر نہیں سکا۔ افغانستان کے لیے جنرل نے جو حکمتِ عملی بنائی، اسے وہ ایک جملے میں بیان کیا کرتے"The water should boil on the right temprature" پانی کو موزوں ترین درجہ حرارت پر ابالا جائے۔ روسیوں کی مزاحمت کی جائے مگر مشتعل کرنے سے گریز کیا جائے۔ باقی تاریخ ہے۔ یاد دہانی کے لیے فقط یہ کہ محترم چودھری نثار علی خان کے پسندیدہ لیڈر خان عبدالولی خان، اس زمانے میں ارشاد کیا کرتے: روسی جنرل اگر چاہیں تو مرسڈیز گاڑیوں میں بیٹھ کراچی پہنچ سکتے ہیں۔ وہ کہاں پہنچے؟ بیس برس میں 2.6ٹریلین ڈالر لٹانے کے بعد امریکہ بہادر کہاں پہنچا؟ افغانستان پر حملے سے قبل مشاورت کے لیے ایک امریکی وفد خاموشی سے ماسکو پہنچا۔ روسیوں کا مشورہ یہ تھا:ہرگز یہ اقدام نہ کیا جائے۔ آٹھ سالہ جنگ اور سوویت یونین کی شکست ریخت سے وہ بہت کچھ سیکھ چکے تھے۔ مزید برآں افغانستان میں ان کی انٹیلی جنس اچھی تھی۔ امریکی اس میدان میں ان سے پیچھے تھے۔ جذبات کی شدت میں وضع کی گئی امریکی حکمت عملی کی ایک نمایاں بنیاد یہ تھی کہ افغانستان میں قدم جما کر اس خطے میں، واشنگٹن کا رسوخ بڑھایا جائے۔ آسٹریلیا اور جاپان کے علاوہ، بھارت اب اس کا حلیف تھا۔ دوسرا یہ بھی کہ جنگی اخراجات کا ایک حصہ افغانستان کی معدنیات سے پورا کیا جا سکتا ہے… لیتھئم، رواں صدی میں، جس کی اہمیت سونے سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ روسی آئے تو دانشوروں نے بتایا کہ پاکستان کی عسکری قیادت حماقت میں مبتلا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین کو ہرایا نہیں جا سکتا۔ امریکی داخل ہوئے تو طالبان کا تمسخر اڑایا گیا۔طالبان کے نظریات سے خاکسار کو بھی اتفاق نہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ جنگِ آزادی کے لیے بروئے کار آنا قابلِ فخر تھا یا قابل مذمت؟ کیسے عجیب دانشور ہمارے حصے میں آئے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر میں قتل و غارت پر خاموش۔ افغانستان میں خونخواری پہ شاداں۔ ساری خرابی تجزیے میں ہوتی ہے۔ کیسے لوگ ہیں کہ ہر بار ان کا تجزیہ غلط ثابت ہوتا ہے مگر ان کے لہجوں میں دائم وہی اصرار۔