ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کئے مگر وہ نین کہ تونے تھے جو نشیلے کئے محبتوں کو تم اتنا نہ سرسری لینا محبتوں نے صف آرا کئی قبیلے کئے اس وقت اے پی سی کا ردعمل جاری ہے۔میری کیا بساط کہ میں کسی پر کوئی رائے دوں کہ دانشوروں کی نمائندگی کرتے ہوئے محمد عباس مرزا نے کہا کہ انہوں نے تو سیاسی پوسٹیں لگانا ہی بند کردی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ اس اعلامیہ کے بھی نتائج اچھے نہیں ہوں گے جس میں ملکی بقا کو پس پشت ڈال دیا گیا مگر کیا یہ بات بھی برخلاف سچ یا حق ہے کہ ملکی معیشت کو برباد کردیا گیا ہے اور ہماری کرنسی کا حشر افغانستان اور نیپال کی کرسی سے بھی زیادہ برا ہو چکا ہے۔ کیا یہ بات بھی غلط ہے کہ اب بجلی کے بل کے ساتھ ساتھ گیس کا بل بھی بم کی طرح گرتا ہے۔ خان صاحب نے کچھ کیا ہوتا تو لوگ سچ مچ اے پی سی والوں کی باتوں پر کان تک نہ دھرتے۔ کہا گیا کہ خان صاحب کو کوئی نہیں لے کر آیا وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں مان لیا مگر وہ عوام جو ان کو منتخب کر کے لائی مگر خان صاحب تو کچھ اور لوگوں کو منتخب کر کے حکومت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی شکلیں بھی کسی سے نہیں دیکھیں جو چھوٹے چھوٹے شوکت عزیز محسوس ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایسے لگتے ہیں جیسے اے ٹی ایم مشینوں نے انسانی روپ دھار لیا ہو۔ مقامی اے ٹی ایم باہر جا بیٹھی۔ بہرحال میں زیادہ سیاسی بات نہیں کرنا چاہتا کہ کم عقل ہوں کوئی گستاخی ہو جائے گی۔ ہر ادارہ اپنے اعمال جانتا ہے اور اسے اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اللہ کو حاضر ناظر جان کر ہی سوچنا ہو گا۔ آخر اور حتمی طاقت یقینا خالق کے پاس ہے کہ مضبوط کرسی خود ہی لرز جاتی ہے۔ یہاں تو علم پر بھی تکبر منع ہے جو دل اور دماغ میں ہوتا ہے اور طاقت سے زیادہ اثر انگیز ہوتا ہے۔ میاں محمد بخش نے کہا تھا: پڑھنے دا نہ مان کریں توں نہ آکھیں میں پڑھیا او جبار قہار کہاوے متاں روڑھ دوے دودھ کڑھیا وہ کسی وقت بھی کسی کا مکو ٹھپ سکتا ہے۔ یہ مکو ٹھپنا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ چلیے اب سیاست سے کچھ ادب نکالتے ہیں۔ مجھے اچھا لگا کہ زرداری نے اپنی تقریر ایک مصرع پر ختم کی ’’مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے۔‘‘ اس سے ایک پورا عہد میرے سامنے نکل گیا۔ میرے معزز قارئین یقینا لطف اٹھائیں گے کہ اس مصرع کے پیچھے کیا کچھ ہے۔ مجھے وہ نشستیں یاد آ گئیں کہ جو سیف الدین سیف کے ساتھ ہمارا معمول تھیں۔ ایک دن وہ موڈ میں آ کر بتانے لگے کہ شاہ صاحب‘ میں میٹرک میں تھا۔ کتابیں اٹھائے گھر جا رہا تھا کہ کسی نے مجھے روک کر کہا۔ بچے آپ کو فض صاحب بلا رہے ہیں۔ میں اس شخص کے ساتھ ایک جگہ پہنچا تو وہاں صوفی تبسم‘ فیض احمد فیض اور کچھ لوگ موجود تھے۔ یہ امرتسر کی بات ہے۔ وہ کہنے لگے کہ برخوردار یہ سچ ہے کہ یہ غزل تم نے کہی ہے: مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانہ محبت میں اسے سنا کے روئوں وہ مجھے سنا کے روئے تو انہوں نے مجھ سے کوئی اور غزل سنانے کے لیے بھی کہا۔ میں نے سنا دی تو وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ جن دنوں خانہ فرہنگ ایران والوں نے صادق گنجی کے تعزیتی ریفرنس میں بھی یہ غزل چلائی کہ یہ مرحوم صادق گنجی کی پسندیدہ غزل تھی۔ اس غزل کو بہت شہرت ملی۔ اس میں غلطی سے کچھ گانے والوں نے کچھ اور شعر بھی ایڈ کر لیے۔ میں نے ایک مرتبہ غلام علی کو یہ بات بتائی کہ یہ شعر سیف کی غزل کا نہیں کہ میں یہ کیسے مان جائوں کہ وہ دور جا کے روئے۔ یہ شہزاد جالندھری کی غزل کا ہے جس نے اس زمین کو اختیار کیا۔ سیف کا ایک شعر تو مجھے بے انتہا پسند ہے کہ غزل کے تمام معیارات کو چھوتا ہے: ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی ہم سے کھینچتے ہی وہ تلوار نظر آنے لگے واقعتاً سیاست میں بھی ایسے ہی ہے کہ محبوب کی تمام کمزوریوں کو عاشق صادق چھپائے رکھتا ہے مگر کسی بات پر ان بن ہو جائے یا پھر عاشق تنگ آ کر کہہ دے کہ مجھ سے پہلے سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔ تو پھر محبوب تو محبوب ہے تندی تو اس کی خو میں ہے۔ وہ ردعمل میں آپے سے باہر تو ہوگا بلکہ ایک مرتبہ احمد فراز نے ہماری ایک سینئر محترمہ کو شدید غصے میں دیکھا تو کہا‘ آپ آتش قبا ہورہی ہیں۔ آخر میں تذکرہ میڈم نور جہاں کا کہ ہمیں معروف شاعر اور سیاستدان بشریٰ حزیں نے یاد دلایا کہ آج سروں کی ملکہ نور جہاں کا جنم دن ہے اور ساتھ ہی انہوں نے میڈم کی بخشش کی دعا کی تو ہم آمین کہتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ مولانا طارق جمیل نے ایک مرتبہ میڈم کے بارے میں کہا کہ وہ ستائیس رمضان کو جدا ہوئیں تو وہ متبرک رات کے باعث جنتی ہیں تو کئی مولانا معترض ہوئے تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ہم کسی کے جنت میں جانے سے کیوں غصے میں آ جاتے ہیں کیا ٹھیکہ کسی اور کے پاس ہے۔ خیر چھوڑیے اس بات کو، اللہ کی شان ہے کہ وہ بخش دینے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ وہ تو خود ہی عطا پہ مائل تھا۔ ورنہ کیا میں نے اہتمام کیا۔ میڈم نور جہاں کی ایک بات میں کبھی نہیں بھولا کہ ایک محفل میں انہوں نے بتائی۔ اس محفل کا اہتمام ہمارے دوست حسن رضوی مرحوم نے کر رکھا تھا۔ کہنے لگیں کہ ایک مرتبہ ان کے آنے پر سب لوگ ادب سے کھڑے ہو گئے مگر ایک گلوکارہ بیٹھی رہیں۔ میں آپ کو بتادوں کہ وہ حمیرا چنا تھیں۔ مجھے یہ بات پہلے ہی معلوم تھی‘ میڈم نے نام نہیں لیا۔ میڈم نور جہاں نے اس سے کہا ’’تم جتنا سیکھی ہو اتنا تو میں بھلا چکی ہوں۔‘‘ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ چلیے ہم نے سیاست اور ادب کے ساتھ تھوڑی سی موسیقی بھی شامل کردی۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کئے