ڈاکٹر مبشر حسن پاکستان کے ماہرین معاشیات میں بہت بڑا نام ہے۔ پیپلز پارٹی کا قیام ان کے لاہور والے گھر میں ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے وزیر خزانہ تھے۔ ان سے ملاقات ہمیشہ علم اور زندگی کے تجربے کے نچوڑ میں رچی گفتگو کا خزانہ تحفے میں دیتی ہے۔ آج پاکستان کے معاشی حالات پر گفتگو کرتے اور مضامین تحریر کرتے لوگوں کے علم کا جائزہ لیتا ہوں تو ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ بہت یاد آتے ہیں وہ جو مغرب سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے مگر مغرب سے مرعوب نہیں تھے۔ یہ شاید اس نسل کے آخری نمائندوں میں سے ہیں جنہوں نے برطانوی تسلط میں آنکھ کھولی ۔انہیں کے نظام میں اوائل عمر گزاری‘ برطانیہ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں علم حاصل کیا لیکن نہ تو وہ اس علم کی چھاپ لے کر لوٹے اور نہ ہی اس تہذیب سے مرعوب ہوئے یہ وہ نسل تھی جس کے سرخیل قائد اعظم اور علامہ اقبال تھے۔ لنکن ان سے بیرسٹری اور لندن میں وکالت کے باوجود پاکستان کی تاریخ میں مغربی معاشی نظام کا قائد اعظم سے بڑا ناقد کوئی نہ تھا۔ اقبال تو روح عصر تھے۔ جرمنی اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں تعلیم نے ان کا رشتہ اسلام اور مشرق سے مزید مستحکم کیا وہ تو یہ دعویٰ بھی کرتے تھے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف ڈاکٹر مبشر بھی گزشتہ صدی میں جنم لینے والے اور آج اس دنیا پر چھا جانے والے مالیاتی نظام کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ آج جب معیشت دانوں کی فصل در فصل اور نسل در نسل اپنے معاشی مسائل کا حل اسی دکان سے حاصل کرنے کے لیے کہتے ہیں تو میر کے اس شعر کے مصداق کہ جس میں عطاّر کے لونڈے کا ذکر ہے‘ مہاتیر محمد کی کتاب کا وہ فقرہ کانوں میں گونجتا ہے جو اس نے ان معیشت دانوں کے جواب میں کہا تھا جو اسے حالات بہتر بنانے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے دروازے پر لانا چاہتے تھے۔ اس نے کہا تھا۔ "We belive that the medicine suggested to us is worse than the disease we have." ’’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو دوا ہمیں تجویز کی جا رہی ہے وہ اس بیماری سے زیادہ خطرناک ہے جو ہمیں لاحق ہے‘‘ ۔ یہ جو بیماریاں ہمیں آج لاحق ہیں‘ یہ جو رونے ہم روز رو رہے ہیں‘ یہ جو ماتم ہمارے ہاں برپا ہے‘ اقتصادی بحران ‘ معاشی زوال اور صنعتی تباہی کے جو قصے ہمیں سنائے جاتے ہیں‘ عالمی برادری میں ہماری ساکھ‘ ہماری کرنسی کی بے قدری اور ہماری مصنوعات کی عدم پذیرائی کا رونا رویا جاتا ہے‘ کیا اس ملک میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام میں سے ننانوے فیصد سے بھی زیادہ لوگوں کو علم ہے کہ اس ’’مجلس شام غریباں‘‘ کے معاشی نوحہ گریا تو اپنے فن تقریر کی داد کے لیے اس میں روز بروز رنگ بھرتے ہیں‘ یا پھر کچھ ایسے ہیں جنہیں زندگی میں اس کام کے علاوہ کوئی اور کام آتا ہی نہیں۔ ان کا مبلغ علم دنیا بھر کے ان معاشی سانحات سے متعلق ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے یہ سب سانحات ایک ترتیب سے کیوں ہو رہے ہیں‘ کون ان کو برپا کرتا ہے اور یہ صرف وہیں برپا کیوں ہوتے ہیں جہاں کئی دہائیوں سے بحرانوں نے ٹھکانہ کر رکھا ہے۔ کیا ورلڈ بنک ‘آئی ایم ایف‘ بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ ‘ اور جدید مالیاتی نظام کے وجود میں آنے سے پہلے دنیا ایسی تھی جیسی آج ہے۔ ہرگز نہیں اس سوال کا جواب ڈھونڈتا ہوا جب میں ڈاکٹر مبشر حسن کی اس تحریر پر پہنچا جو انہوں نے ایک کتاب کا پیش لفظ میں لکھی تو حیرت کا جہان کھل گیا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’غریب اور امیر ملکوں میں تفاوت کی ایک مثال یہ ہے کہ 1946ء میں ایک ڈالر کے بدلے میں 3روپے 6آنے ملتے تھے(یعنی 3روپے 37پیسے) راقم الحروف جیسا حکومت سے 230روپے تنخواہ لینے والے آفیسر کو جب وظیفہ دے کر تعلیم کے لیے امریکہ بھیجا گیا تو وہ نیو یارک کے فیشن ایبل ترین علاقے سے اپنے لیے 65ڈالر کا سوٹ خرید سکتا تھا۔ اس وقت نیو یارک میں کافی کی پیالی 5پنس یعنی ہمارے 16پیسے کی تھی اور بس کا کرایہ بھی 16پیسے تھا خواہ کہیں سے کہیں چلے جائیں۔1962ء میں راقم الحروف ایک پروفیسر تھا جس کی تنخواہ 1800روپے ماہوار تھی اور اس تنخواہ پر وہ لندن میں ایک سیل کرنے والی دکان سے 25ڈالر کا سوٹ خریدنے کا متحمل تھا،1974ء میں وزیر خزانہ پاکستان کی حیثیت میں وہ لندن کی ایک دکان سے پانچ چھ ڈالر کا سو ئٹر ہی خرید سکا۔ انگریزی سوٹ کی خرید اس کی استطاعت سے باہر تھی۔ اس سال 2001نیو یارک میں کافی کے پیالے کی قیمت‘ بس اور سب وے کے ٹکٹ کی قیمت 90روپے ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں کی امیر ملکوں کا مال خریدنے کی صلاحیت نہیں ہے‘‘ کیا اس تمام عرصے میں پاکستان میں کھیتوں نے غلہ اگانا بند کر دیا۔ فیکٹریوں کو آگ لگا دی گئی‘ مزدوروں نے کام کرنے سے انکار کر دیا‘ گھر بننے بند ہو گئے‘ دکانوں پر تالے لگ گئے۔ سب کچھ تو پہلے سے ہزار درجے بہتر ہوا ہے لیکن ہم دنیا میں مفلس و نادار ہو گئے۔ ہم غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے۔ ایسا نہیں ہے ہم ایک جال میں پھنس چکے ہیں اور جب تک اس کو توڑ کر باہر نہیں نکلتے ہم نہ آزاد فضائوں میں پرواز کر سکتے ہیں اور نہ وسیع سمندروں کی گہرائیوں میں موتی تلاش کر سکتے ہیں۔ ہمارا حال اس پرندے یا مچھلی کی طرح ہے جو جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ جال عالمی اقتصادی ‘ مالیاتی نظام کا ہے جو ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بُنا ہے۔ یہ وہ جال ہے جس نے ہر غریب ملک کو مزید مفلوک الحال بنا دیا ہے۔ چند دن پہلے میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے بہت ہی پیارے دوست گلے کے سرطان کے آپریشن کے بعد کیمو تھراپی سے صحت مند ہو گئے مگر ان کے گلے کی سوجن بڑھنے لگی‘ بہت علاج کے بعد جو دوا تجویز کی گئی وہ انگلینڈ سے آتی تھی جو صرف اور صرف ہلدی کو کیپسولوں میں بند کر کے اس کا نام Curcuminرکھ کر بیچی جاتی تھی۔ اس دوا سے حیرت انگیز فائدہ ہوا۔ لیکن کیا ہم جہاں یہ ہلدی پیدا ہوتی ہے‘ یہ کیپسول بنا کر نہیں بیچ سکتے۔ شاید اس ملک کے عام آدمی کو اس مالیاتی نظام کے شکنجے کا علم نہیں جو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت ہونے والے عالمی معاہدے(TRIPS) Trade Related intellectual property rights. نے کس دیا ہے۔ اب ہر ایجاد کا کوئی نہ کوئی مالک ہے جو اسے اپنے نام سے بیچتا ہے۔ حیرت ہے کہ انگلینڈ میں بیٹھا ایک شخص برصغیر کی کتابوں سے ہلدی کے فوائد کا علم لے کر دوا رجسٹرڈ کرواتا ہے اور جہاں ہلدی پیدا ہوتی ہے ان لوگوں کو اس کی مالی منفعت سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ گزشتہ تیس سال کی دردناک کہانی ہے جس میں غریب ملکوں کو یہ پڑھا دیا گیا ہے کہ تم اتنے نکمے اور ناکارہ ہو کہ تم جوتوں کی پالش ‘ ٹوتھ پیسٹ ‘ صابن ‘ شیمپو ‘ خوشبو ‘ دلیہ‘ چپس‘ کپڑے‘ جوتے‘ نپل ‘ قلم اور ربڑ جیسی چیزیں بھی نہیں بنا سکتے۔ ہم معیار دیتے ہیں اور بیچتے ہیں۔ یہ معیار بھی میرے ملک میں تیار ہوتا ہے۔ اسی ملک کا مزدور ان فیکٹریوں میں مصنوعات بناتا ہے۔ جسے خوبصورت ماڈلز اور چکا چوند میڈیا کی روشنی میں بیچا جاتا ہے۔ دنیا کی چار کمپنیاں مارکیٹ کے چالیس فیصد کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ان کی مرضی سے عالمی کرنسیوں کے نرخ اوپر نیچے ہوتے ہیں اور اشیاء کی قیمتیں بدلتی ہیں۔ اس جال کو توڑنا معاشی تبدیلی کی پہلی منزل ہے‘ لیکن کیا کریں‘ میرے ملک کا معیشت دان تو اس جال کو عافیت سمجھتا ہے۔