گرم سرد ہونا محاورے میں سنا تھا ،لیکن عملی طور پر امریکہ میں اسی سے واسطہ پڑ رہا ہے۔کبھی گرم ،کبھی سرد ،کبھی سرد تر اور کبھی برف باری۔یہ سب موسم ہم سے اور ہم ان سے گزرتے جاتے ہیں۔اسی طرح ٹائم مشین میں تو نہیں لیکن ٹائم زونز میں سفر کرنا ایک الگ روداد ہے۔جسم کے اندر کی قدرتی گھڑی دل کے ساتھ ٹک ٹک کرتی ساتھ ساتھ رواں ہے۔اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ باہر وقت کیا ہوا ہے اور اب ہم پچھلے پڑاؤ سے ایک گھنٹہ آگے ہیں یا پیچھے۔یہ دھک دھک اور ٹک ٹک کرتی گھڑی کبھی سر شام پپوٹے بھاری کرنا شروع کردیتی ہے اور کبھی رات کو 3 بجے جگا کر اس طرح بیدار کردیتی ہے کہ نیند چوپٹ ہوکر رہ جائے۔ایسے میں طبیعت نڈھال ہونا یا خراب ہوجانا کوئی عجب نہیں لیکن شکر ہے کہ طبیعت ٹھیک ہے اور سب مصروفیات اور تقریبات بھی اچھے طریقے سے چل رہی ہیں۔ سنسناٹی میں برف باری تھی لیکن اٹلانٹا نے جو ریاست اوہائیو کا شہر ہے، خوشگوار سردی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔اٹلانٹا ائیر پورٹ جسے ہارٹ فیلڈ جیکسن( (Hartfield jackson) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ہارٹ فیلڈ اور جیکسن اٹلانٹا کے دو میئرز کے ناموں کے آخری حصے ہیں۔یہ ائیر پورٹ امریکہ ہی نہیں دنیا کے بڑے ائیر پورٹس میں سے ہے۔۔470 ایکڑ پر محیط اس اییر پورٹ کے اندر ٹرینیں چلتی ہیں جس کے کئی اسٹیشنز ہیں ۔ چنانچہ جہاز اترنے کے بعد ہمیں اس ٹرین میں سوار ہونا تھا اور مطلوبہ اسٹیشن ڈھونڈ کر ہم وہاں اترے۔ پھر کچھ پیدل چلنے کے بعد اس بیلٹ تک پہنچے جہاں ہمارا سامان آنا تھا۔ 1998 ء سے اب تک اٹلانٹا مسافروں کی آمد و رفت کے اعتبار سے دنیا کا مصروف ترین ائیر پورٹ چلا آتا ہے جو جہازوں کی آمد و رفت کے اعتبار سے بھی 2005 ء سے 2013ء تک مصروف ترین ایئرپورٹ رہا۔2014 ء میں شکاگو کے اوہارے ائیر پورٹ نے یہ اعزاز اس سے لے لیا لیکن اگلے ہی سال اٹلانٹا ایئر پورٹ نے یہ اعزاز واپس لے لیا۔ 2017ء میں یہ ائیر پورٹ دنیا کا مصروف ترین ائیر پورٹ تھا جس میں تقریبا دس لاکھ جہازوں کی آمد و رفت رہی اور دس کروڑ چالیس لاکھ مسافروں نے یہاں سے سفر کیا۔ امریکہ کے سفر نامے بے شمار ہیں اور مجھے اندازہ ہے کہ شاید میں یہاں رہنے والے یا بہت سے دیگر قارئین کی معلومات میں اپنے مشاہدے سے کچھ خاص اضافہ نہیں کرسکوں گا تاہم دیکھنے والی آنکھ کا فرق منظر بھی بدل دیتا ہے اور مشاہدہ بھی زاویے کے فرق سے مختلف ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے پڑھنے والوں کے لیے یہ معلومات نئی بھی ہوں گی۔بہت اچھی بات یہ ہے کہ ان کالمز کا بہت اچھا تاثر مجھ تک پہنچتا جارہا ہے۔ اسی لیے مجھے یہ تحریریں فائدہ مند لگتی ہیں۔اٹلانٹا سرسبز اور حسین شہر ہے۔تاریخی طور پر بھی نہایت اہم کیوں کہ امریکی سول وار اور 1960ء کی سیاہ فاموں کے حقوق کی جنگ میں اس نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔تاریخ ساز سیاہ فام رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونئیر اسی شہر سے تھا۔یہیں سے وہ انقلابی تحریک اٹھی تھی جس نے موجودہ دور میں امریکہ کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ہم نے مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کا گھر اور چرچ دیکھا۔ موجودہ عہد میں صدر جمی کارٹر کا تعلق اٹلانٹا ہی سے تھا۔ چنانچہ کارٹر بلیوارڈ اور کارٹر سنٹر ان کی یاد دلاتا رہتا ہے۔1996 ء میں اولمپکس بھی اٹلانٹا میں منعقد ہوئے تھے ۔ اس وقت جو سٹیڈیم کھیلوں کی عمارات اور اولمپک ویلج بنایا گیا تھا وہ بھی بدستور فعال چلا آتا ہے۔مشہور امریکی مشروب کا ہیڈ آفس بھی اسی شہر میں ہے اس کے علاوہ بھی کئی حوالوں سے اٹلانٹا بڑی تجارتی کمپنیوں کا مرکز ہے۔ کشادہ راستوں اور کھلے منظروں والا اٹلانٹا خوب ہے لیکن وہ جو شہر کا مرکزی حصہ یعنی ڈاؤن ٹاؤن کہلاتا ہے وہ حسن انتظام کا منفرد نمونہ ہے۔بلند اور کثیر المنزلہ جدا جدا عمارتوں کو معلق راستوں اور بند راہداریوں کے ساتھ، جو سڑکوں کے اوپر سے گزاری گئی ہیں'اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ آپ ایک عمارت میں داخل ہوکر بہت سی عمارتوں میں پھر سکتے ہیں۔ہم نے پارکنگ پلازا میں اپنی گاڑی کھڑی کی اور وہاں سے پیچ ٹری پلازا میں داخل ہوگئے۔اس بڑے پلازا سے ایک اور عمارت میں اور وہاں سے میریٹ ہوٹل اٹلانٹا کی بلڈنگ میں جو غیر معمولی حسین عمارت ہے۔اس انتظام سے وہاں کام کرنے والے ایک شخص کا وقت بھی بچتا ہے اور سڑکوں پر ہجوم بھی نظر نہیں آتا کیوں کہ یہ ہجوم تو عمارتوں کے اندر گھوم رہا ہوتا ہے۔ اٹلانٹا کا مشاعرہ بھی بہت اچھا رہا۔لوگ ذوق و شوق سے مشاعرہ سننے آئے اور آخر تک موجود رہے۔شعرا کو بھرپور داد سے نوازا گیا اور اللہ کے فضل سے دیگر مشاعروں کی طرح اس محفل میں بھی میرے حصے میں بھرپور تحسین اور پذیرائی آئی۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں نوجوان نسل کی نمائندگی بھی اچھی تھی۔لیکن جیسا کہ پچھلے کسی کالم میں ذکر کیا تھا ہر شہر کی طرح یہاں کے لوگ بھی یہ اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ میں اگلی نسل کی اردو دانی نہ ہونے کے باعث اردو شاعری کا مستقبل مخدوش ہے۔یہ محفلیں کتنی دیر اور سجیں گی۔کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اٹلانٹا کا موسم خوشگوار ہے۔یہاں برف کبھی کبھار اور بہت کم پڑتی ہے۔ٹرمپ اور عمران خان کی ٹویٹس بھی موضوع گفتگو رہیں۔مجھ سمیت سب کا تاثر یہی ہے کہ امریکہ بہادر کبھی گرم اور کبھی سرد جنگ میں الجھا رہنا پسند کرتا ہے ۔ اپنے کھلے مخالفوں اور ممکنہ مخالفوں دونوں سے پس پردہ مصروف جنگ رہنا تو ہمیشہ سے اس تاریخ کا حصہ تھا لیکن ٹرمپ کے دور میں اب اس میںسفارتی آداب اور سفارتی زبان کا پردہ بھی ختم ہوچکا ہے ۔ حال میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے متعلق ٹویٹس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جواب میں کچھ ٹویٹس کیں جو کرنی لازمی تھیں اور اس طرح یہ لفظی جنگ پھر گرم ہوگئی ۔ عجیب معاملہ ہے کہ امریکی فارن آفس کو ٹرمپ کی ٹویٹس، انٹرویوز اور بیانات کی وضاحت کرنی پڑتی ہے اور معاملات کو زیادہ الجھنے سے بچانا پڑتا ہے ۔ اور یہ سلسلہ نئی امریکی انتظامیہ کے آغاز ہی سے جاری ہے ۔ میں نے سنسناٹی کے مشاعرے میں ایک تازہ شعر پڑھا کہ اس اعتماد سے ہم سچ بھی کہہ نہیں پاتے جس اعتماد سے وہ شخص جھوٹ بولتا ہے میرے اس شعر پر یہاں دوستوں نے اپنی تحقیق پیش کی کہ یہ شعر تو حالیہ صدارتی ٹویٹس سے متعلق لگتا ہے ۔خیر یہ تو ایک تفنن طبع کی بات تھی لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ انتظامیہ پاکستانی اور امریکی برادری میں یکساں طور پر اتنی غیر مقبول ہے ۔ اس کے باوجود یہ بھی بظاہر نوشتہ ٔ دیوار لگتا ہے کہ دوسری مدت کے لیے بھی ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہوجائے گا۔وجہ یہی ہے کہ وہ گورے امریکی ٹرمپ کے نظریے اور سوچ کو پسند کرتے ہیں جو زیادہ تعلیم یافتہ تونہیں ہیں لیکن اکثریت رکھتے ہیں اور ان کے اندر وہ نسلی تعصب موجود ہے جو ان بیانات اور ان نظریات سے مہمیز ہوتا ہے ۔ تو صاحب یہ گرم سرد جنگ چل رہی ہے ۔ جو بات موسم سے شروع ہوئی تھی سیاست پر ختم ہورہی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ نیا تو یہ ہوتا کہ جس موضوع سے بات شروع ہوئی تھی اسی پر ختم ہوتی ۔اس وقت جب ہم ہیوسٹن ، ٹیکساس آپہنچے ہیںاور یہاں کے خوشگوار موسم کا لطف لے رہے ہیں ۔ ایک تازہ شعر سن لیجے: جتنا بھی محتاط ہو آخر جانا جاتا ہے آدمی اپنے لفظوں سے پہچانا جاتا ہے