اِس وقت ہمارے ملک میں ما سوائے تربیلا اور منگلہ ڈیم کے اور کوئی بڑے ڈیم نہیں ہیں کہ جس میں لاکھوں کیوسک پانی ذخیرہ کیا جا سکے ۔ صدر ایوب خان نے راوی، بیاس اور ستلج کا بھارت کے ساتھ سودا کر کے اور اِن دریاؤں کے عوض جو اُن کو رقم ملی تھی اُنہی سے منگلہ ڈیم اور نہری نظام کو مزید ترقی دی گئی تھی ۔ جبکہ ہمارے ملک کی بقا جو قدرتی طور پر بھی بنا بنایا ڈیم ہے اُسے ہم نے چند انڈین لابی کے گماشتوں کی ہرزہ سرائی کی وجہ سے ترک کر دیا ہے کالا باغ ڈیم ہمارے ملک کی آبی ضروریات کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے لیکن اِس ڈیم پر اربوں روپے قوم کے خرچ ہونے کے باوجود اِس کو نہیں بنایا گیا کالا باغ ڈیم اگر آج موجود ہوتا تو آج نہ تو سندھ صحرا میں تبدیل ہوتا اور نہ ہی پنجاب بھر میں پانی کی قلت ہوتی ۔ سندھ سمیت ملک بھر میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین صحرا میں تبدیل ہو چکی ہے چاول کی فصل کا موسم تیزی سے گزر رہا ہے کپاس کی بوائی بھی ابھی تک نہیں ہو سکی جنوبی ملتان ، بہاول پور ، ڈیرہ غازی خان ، راجن پور ، بھکر ، لیہ اور دیگر علاقوں میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر چاول اور کپاس کی فصل کا شت نہیں ہو سکی زمین میں پانی کا لیول بہت نیچے چلا گیا ہے جنوبی پنجاب میں بڑے جاگیرداروں کے علاوہ زیادہ تر تعداد چھوٹے کاشت کاروں کی ہے جو ہر سال دس سے بارہ ایکڑ رقبہ پر چاول ، گنا اور کپاس کاشت کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال کر گزارہ کرتے ہیں لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے اب وہ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں چولستان اور ڈیرہ غازی خان کے قبائلی (پہاڑی ) علاقوں میں بارش نہ آنے کی وجہ سے جانور موت کا لقمہ بن رہے ہیں جبکہ ان علاقوں میں اب قحط کا خطرہ صاف نظر آرہا ہے اس طرح اگر میدانی علاقوں میں آئندہ چند دنوں تک بارش نہ آئی اور یونہی پانی کی قلت برقرار رہی تو پھر انسانوں کی خوراک کے ساتھ جانوروں کا چارہ بھی نہیں اُگایا جا سکے گا جس سے چولستان اور پہاڑی علاقوں کی طرح یہاں بھی قحط کی صورت حال سامنے آ سکتی ہے اب ذرا بارش نہ آنے اور پانی کی اِس شدید قلت کے اسباب پر بھی غور کر لیں پہلی بات تو یہ سو فیصد درست ہے کہ ہمارے اعمال بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے۔ قدرت نے ہمیں کالا باغ کے قیام پر بنا بنایا ڈیم دیا ہے لیکن ہماری بد قسمتی کہ ہم اُس جگہ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے کہ کبھی کالا باغ کے تعمیر ہونے سے نو شہرہ ڈوبنے کا خطرہ تھا اور کبھی سندھ صحرا میں تبدیل ہو جاتا اب نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ جن لوگوں نے سب سے زیادہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی تھی انہی کا صوبہ سندھ میں ہاری کسان ہی کیا کرتا تھا اب ذرا وہ اپنے وڈیروں سے پوچھے کہ آپ تو کہتے تھے کالا باغ بننے سے سندھ صحرا میں تبدیل ہو جائے گا لیکن کالا باغ ڈیم تو نہیں بنا یہ صحرا میں کیوں تبدیل ہو رہا ہے ۔ آج اگر کالا باغ ڈیم بن چکا ہوتا تو نہ بجلی کا مسئلہ پیدا ہوتا اور نہ ہی پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوتا دریائے سندھ ڈیرہ غازی خان کے ساتھ بہتا ہے کبھی اِس موسم میں اِن دنوں دریائے سندھ میں چار لاکھ کیوسک پانی ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت صرف چالیس سے پچاس ہزار کیوسک پانی چل رہا ہے جبکہ دریا کے درمیان میں ریت نکلی ہوئی نظر آتی ہے ایک دریائے سندھ ہی تو ہے جو ہماری ملکیت ہے اور جن پر انڈیا کی بہت کم اجارہ داری ہے ۔جن ممالک کے حکمران اپنی قوم سے مخلص ہوتے ہیں اُن کی مثال متحد ہ عرب امارات اور دیگر یورپی ممالک کی ہمارے سامنے ہے کہ دوبئی ، ابو ظہبی ، شارجہ وغیرہ مکمل طور پر صحرائی ممالک ہیں لیکن اِن حکمرانوں نے وہاں پر سسٹم میں مصنوعی بارش کا سلسلہ پیدا کر لیا ہے جب بھی اُن کو بارشد کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ مصنوعی طریقے سے بارش برسانا شروع کرا دیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے اب وہاں ہر طرف ہریالی اور فصلیں نظر آتی ہیں جبکہ دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے والا ہمارا ملک نا اہل اورکرپٹ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی وجہ سے روز بروز صحرا میں تبدیل ہو رہا ہے اور اب جب ہم اپنے آپ کو خود بدلنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تو قدرت نے بھی ہمیں چھوڑ دیا ہے کہ جو قوم خود حرکت نہیں کرتی وہ آگے ذلیل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کریں اور ہمیں معاف کر دیں ۔