پچھلے ایک سال سے ہمارا ملک جس افراتفری کا شکار ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے الگ کیاگیاتھا لیکن عمران خان اور ان کی جماعت نے اسے ایک سازش قرار دے دیا۔خان صاحب یہ بھول گئے کہ جس طرح ان کی جماعت بنائی گئی تھی اسی طرح اس کا خاتمہ بھی ہوا۔ پی ٹی آئی کو فیصلہ ساز قوتوں نے مختلف جماعتوں کے "الیکٹ ایبلز"کو اکٹھا کرکے بنایاتھا، پھر چند دوسری چھوٹی جماعتوں کو تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے کہاگیا،2018میں تحریک انصاف کو وفاق، پنجاب ، کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقع دیاگیا، بعد میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پی ٹی آئی کی حکومتیں بنائی گئیں ۔ خان صاحب سیاست کے میدان میں نووارد تھے، یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ 26برس سے سیاسی جدوجہد کررہے ہیں لیکن پاکستانی سیاست کے داو پیچ اور اتار چڑھاو سے وہ پوری طرح واقف نہیں تھے ۔ اسٹیبلشمنٹ نے انھیں ن لیگ اور پی پی کی بدعنوان اور نااہل قیادت کے متبادل کے طورپر بلڈاپ (BUILD UP )کیا۔کرکٹ کی دنیا کے تو وہ ہیروتھے ، انہیں سیاست کا ہیرو بنانے میں اور ان کا امیج بطور مسیحا بنانے میں فیصلہ سازوں کو بڑی دشواری نہیں ہوئی۔ پاکستانی نوجوانوں کو پی ٹی آئی اور اسکے پیچھے کار فرماوں نے ٹارگٹ کیا، نوجوان عمران خان کے سحر میں مبتلاہوگئے ، ویسے بھی پاکستان کے نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے، تعلیم ، صحت ، روزگارایسے مسائل ہیں جو ہر نوجوان کو پریشان رکھتے ہیں ۔ دنیا بھر میں جتنی بھی تبدیلیاں یاسیاسی اور سماجی انقلاب آتے رہے ہیں وہ نوجوانوں کے ذریعے ہی آئے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے جب ایوب خان کے خلاف 1967میں سیاسی جدوجہد شروع کی تواس جدوجہد کا ہراول دستہ پاکستان کے اس وقت کے نوجوان تھے ۔ بھٹو صاحب نے 1971میں بچے کچھے پاکستان میں جب صدر اور سویلین مارشل لاایڈمنسٹریٹر کا منصب سنبھالاتو انھوں نے قوم سے اپنے خطاب میں پاکستان کے نوجوانوں کوزبردست خراج تحسین پیش کیااور کہاتھاکہ انہیںاور ان کی جماعت کو کامیاب بنانے میں نوجوانوں نے زبردست کردار ادا کیا تھا۔ فرانس ، روس ، چین اور ایران میں جو تایخی انقلاب برپا کیے گئے وہ نوجوانوں کے زور بازو سے ہی ممکن ہوئے ۔ عمران خان کو نوجوانوں اور خاص طورپر پڑھے لکھے ، متوسط طبقے کے نوجوانوں کی بھرپور تائید حاصل ہوئی ۔ خان صاحب کو یہ کریڈٹ بھی جاتاہے کہ انہوں نے ابلاغ کے جدید اور مقبول ذریعہ ، ڈیجیٹل میڈیا، سوشل میڈیا کا کمال مہارت سے استعمال کیااور اس پلیٹ فارم سے نوجوانوں تک رسائی حاصل کی اور اپنا پیغام پہنچایا۔ان کے سیاسی حریف اس محاذ پر پیچھے رہ گئے۔خان صاحب نے سوشل میڈیاایکٹویسٹوں کے ذریعے نوجوانوں کو متحرک کیا البتہ گورننس کے معاملے میں خان صاحب کی کارگردگی پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہوئے ۔خود انہوں نے اعتراف کیاکہ ایک سال تک انھیں سمجھ نہیں آئی کہ حکمرانی کا فن کیاہوتاہے ، انکی کابینہ میں کوئی تجربہ کار اور منجھے ہوئے لوگ نہیں تھے ، کرپٹ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے احتساب پر انہوں نے فوکس تو کیااور اپوزیشن کے سرکردہ لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بھی نیب کے ذریعے چلائے لیکن احتساب کا یہ عمل ماضی کی طرح انتقام نظر آنے لگا، نیب کے بنائے گئے مقدمات عدالتوں میں جاکر ٹھس ہوگئے اور کسی بھی سرکردہ سیاست دان اور بیورو کریٹ کو سزا نہ ہوئی ۔ معیشت بھی ان سے سنبھل نہ پائی ، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ ڈالی۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے والے اس سوچ میں پڑ گئے کہ ان کا بنایاہوا مسیحا ان کی اور قوم کی توقعات پر پورا نہیں اترا، خان صاحب کی چھٹی کروانے کا فیصلہ کیاگیا، وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد خان صاحب کا غصہ بڑھتا ہی گیا، انہوں نے اپنی سیاسی فوج "نوجوانوں"کے ذہنوں میں ڈالا کہ انہیں بلاجواز ایک سازش کے ذریعے اقتدار سے ہٹایاگیاہے ، وہ اپنی تقریروںاور انٹرویوز میں غصے کا برملا اظہار کرتے رہے ، ان کو اندازہ نہیں تھاکہ وہ جو کچھ وہ کہہ رہے اور کررہے ہیں وہ ایک لاوے کی شکل اختیار کررہاہے ۔ ہائی کورٹ اسلام آباد سے گرفتار ی پر جو ردعمل ہوا اور ان کے بپھرے ہوئے چیتوں "ٹائیگرز"نے جوکیا، وہ انکے کھاتے میں پڑ گیا۔ جنہوں نے پی ٹی آئی کو اقتدار تک پہنچایاتھا، انہوں نے جوابی وار کیاتو ان کی پارٹی ریزہ ریزہ ہوگئی ۔ خان صاحب اب زمان پارک میں تنہائی کا شکار ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا، ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے ۔ اس سے زیادہ سخت اقدمات اٹھائے جانے کی بات بھی ہورہی ہے۔ عمران خان اب تنہا ہیں ،تنہائی اس لحاظ سے اچھی ہوتی ہے کہ انسان کو سوچنے اور اپنے طرز عمل پر غور وفکر کرنے کا موقع دیتی ہے ۔ خان صاحب غور کریں کہ ان کے عروج وزوال کی کیاوجوہات ہیں ۔بڑے بڑے لیڈر ، جرنیل اور انقلابی ، ری ٹریٹ (RETREAT)کرکے اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ ان غلطیوں سے سیکھ کر آئندہ کا لائحہ عمل اورحکمت عملی کو احتیاط سے مرتب کرتے رہے ہیں۔ خان صاحب ڈاون ہوئے ہیں مکمل آوٹ نہیں ہوئے ۔ ٹھنڈے دماغ اور دل سے سوچیں کہ وہ غلطیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ خان صاحب نے 2018 میں جو لوگ کابینہ میں شامل کر لئے تھے وہ نا تجربہ کار تھے۔ انہوں نے خان صاحب کو وہ مشورے دئے جو قابل عمل نہیں تھے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ قابل عمل نہیں تھا۔خان صاحب کا خیال تھا کہ بیرون ملک پاکستانی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے ۔ یہ ایک خواب تھا جو پورا نہیں ھوا۔ وہ لوگ جن کے پاس نا جائز کمائی کے انبار تھے انہوں نے اس خوف سے کہ وہ بھی گرفتار ہو سکتے ہیں خان کو چلنے نہیں دیا۔اب عمران خان اپنے خوابوں کے بکھرے ہوئے انبار پر بیٹھ کر سوچ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ھو گیا ہے۔