لوگ حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا اہم واقعہ قرار دے رہے ہیں لیکن عوامی حوالے سے ایک زیادہ اہم وقوعہ اسی روز دن کے وقت پیش آیا جب عمران خان صاحب نے بنوں میں اپنے ہی امیدوار کوتھپڑ جڑ دیا۔ پورا نام تھپڑ رسیدہ کا یاد نہیں آ رہا‘ کوئی خٹک صاحب تھے۔ سنا ہے تھپڑ کھانے کے بعد انہیں خود بھی اپنا نام یاد نہیں آ رہا۔ خیر یہ تاریخی وقوعہ مردان کی جلسہ گاہ میں سٹیج کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پیش آیا۔ تھپڑ رسیدہ امیدوار سیڑھیوں پر خان صاحب کے برابر چلنے کی کوشش کر رہے تھے جو خان صاحب کو پسند نہیں آیا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے سمجھا یہ معمولی سا آدمی میری برابری کی کوشش کر رہا ہے اس لیے تھپڑ رسید کیا۔ ایک صاحب نے یہ خبر یوں سنائی کہ خان صاحب نے امیدوار کو دوھتڑ رسید کر دیا۔ عرض کیا کہ دوھتڑ کہنا غلط ہے وہ تو دونوں ہاتھوں سے رسید کیا جاتا ہے جبکہ کیمرے نے ایک ہی ہاتھ اٹھتا ہوا دکھایا۔ بولے خان صاحب نے ہاتھ تو ایک لیکن زور دونوں ہاتھوں کا استعمال کیا اس لیے دوھتڑ کہنا ٹھیک ہے مزید کہا کہ جو ایک گیند سے دو وکٹیں گرا سکتا ہے وہ ایک ہاتھ سے دوھتڑ کیوں نہیں مار سکتا۔ بہرحال اس معاملے پر بحث آگے نہیں بڑھی۔ باہمی اتفاق رائے ہوا کہ آپ بھی ٹھیک‘ ہم بھی ٹھیک‘ مشترکہ نام اس کا دوھتڑی تھپڑ رکھ دیتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ یہ بات پھر بھی راز ہے کہ خان صاحب نے اس طرح آن ایئر یعنی لائیو دوھتڑی تھپڑ کیوں رسید کیا۔ ایک رائے تو اوپر دی جا چکی کہ برابری کی کوشش پر برہم ہوئے لیکن اس میں زیادہ وزن نہیں ہے۔ ایک اور رائے یہ بھی سامنے آئی کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے قوم کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ میری زبان ہی نہیں ہاتھ بھی چلتے ہیں۔ بات میں منطق ہے ان کی کابینہ اوقات میں رہے گی۔ مطلب احترام عمرانیت کا خیال رکھے گی اور حکومت ہمواری سے چلے گی۔ لیکن ایک تیسری رائے بھی ہے قدرے دل جلی۔ وہ یہ کہ خان صاحب مسلسل ہونے والے عظیم الشان جلسوں سے دلبرداشتہ تھے، اسی کا غصہ نکالا۔ اسی رات کو آپ نے لاہور میں بھی ایک جلسہ کیا۔ پچاس فیصد حاضرین کا تعلق آپ کے امیدوار کی فیکٹری واقع چوہنگ سے تھا۔باقی پچاس فیصد کا تعلق کس سے تھا‘ پتہ نہیں چل سکا کیونکہ وہ آئے ہی نہیں تھے۔ ٭٭٭٭٭ یہ نہیں کہنا چاہیے کہ سبھی جلسے عظیم الشان رہے۔ اسی دوران ایک جلسہ ملتان کا حسب منشا کے قریب تھا جس کا کریڈٹ شاہ محمود قریشی کو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے سلسلہ مشیخیت کے سارے دانے بلا رکھے تھے البتہ اس جلسے کے بعد دو جلسے اسلام آباد کے اور ایک لاہور کا کارنر میٹنگز میں تبدیل کرنا پڑا۔ کارنر میٹنگ کو اردو میں ملاقات گوشہ گاہی کہا جا سکتا ہے شاید۔ ملاقات خلوت البتہ یقینا نہیں کہا جا سکتا ۔ بہاولپور کے جلسے کی شفافیت پر تو سنا ہے خان نے خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ ٭٭٭٭٭ سنا ہے لاہور کی ملاقات گوشہ گاہی کے بعد خان صاحب کا مزاج اور برہم ہو گیا تھا لیکن اس سے پہلے کہ دوھتڑی تھپڑ کی نوبت آتی ایک خوشگوار خبر نے بحالی خاطر کا بندوبست کر دیا۔ خبر وہی تھی جس کا ذکر سر آغاز میں ہوا یعنی شیخ جی کے راستے کی رکاوٹ دور کر دی گئی۔ ان کی یقینی شکست یقینی فتح میں بدل دی گئی۔ شیخ جی کو مبارکباد دینا سب کا فرض ہے جو کچھ لوگوں نے ادا کیا یہاں تک کہ شیخ جی کے ضمیر نے بھی انہیں مبارکباد دی۔ شیخ جی کی کامیابی کے بارے میں ارباب قضا و قدر ایک سو ایک فیصد حد تک مشکوک تھے۔ بڑی بڑی ہستیوں نے بھی ان کے حلقے میں دورے فرمائے لیکن افاقہ نہیں ہوا اب تو مسیحائی ہو گئی۔ ٭٭٭٭٭ جناب مولانا فضل الرحمن نے فرمایا ہے کہ نادیدہ قوتوں نے جو تاثر پیدا کر رکھا ہے انتخابی نتائج اس کے برعکس ہوں گے۔ آپ ٹانک (پختونخوا) میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ مولانا نے یہ پیش گوئی کس بنیاد پر کی ہے؟ نادیدہ قوتوں سے کیا مراد ہے۔ یہ تو سمجھنا مشکل ہے البتہ تاثر موجود ہے اور مہم کی شکل میں موجود سے موجود تر ہوتا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 116سیٹیں جیتے گی۔ جیپ کو پچاس ملیں گی‘ دس سے بارہ مجلس عمل کو بھی مل جائیں گی۔ مسلم لیگ 50سے کم سیٹیں جیتے گی۔50سے کتنی کم یہ ابھی واضح نہیں۔ ایک عدد سیٹ بھی اصولاً پچاس سے کم ہی ہوتی ہے۔ یعنی ایک سیٹ تو بہرحال وہ جیت جائے گی۔ تو سوال یہ تھا کہ مولانا اس تاثر جو یقین کا بادل بن کر فضا کے بسیط میں منڈلا رہا ہے ‘کہ کیسے غلط قرار دے رہے ہیں! شاید انہوں نے الیکشن کمشن اور وزیر قانون کے ارشادات نہیں پڑھے جن میں بتایا گیا ہے کہ پولنگ ڈے کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ اقدامات اپنی تفصیلات کے ساتھ ٹی وی کے ذریعے بھی ہر خاص و عام کو معلوم ہو چکے ہیں، اور اخبارات کے ذریعہ بھی۔ ایک آہنی حصار قائم ہونا ہے ۔ تاثر سے غیر متاثرہ ہونے والا نتیجہ برآمد ہو ہی نہیں سکتا اور نتیجہ تو جوبرآمد ہونا ہے ‘ہونا ہی ہے۔ خبر تک باہر نہیں آ سکے گی، کہ اندر کیا ہوا۔ حلقہ 120میں معاملہ موبائل فون کے کیمروں نے خراب کیا تھا۔ ناگفتنی گفتنی بن گئی تھی اب شفاف الیکشن کمشن نے شفافیت کی ایسی دیوار سکندری چن دی ہے کہ ناگفتنی ناگفتنی ہی رہے گی۔ صرف گفتنی ہی باہر آئے گی اور میڈیا میں جگہ پائے گی۔ اس روز سارے راوی ہر طرف چین بلکہ سکھ چین لکھیں گے۔ مولانا کے ہمسفر سراج الحق فرماتے ہیں الیکشن متنازعہ ہوئے تو وفاق خطرے میں پڑ جائے گا۔ دیکھ لیجیے مولانا کی طرح سراج الحق بھی اخبارات نہیں پڑھتے۔ ورنہ جو شے وقوع پذیر ہو چکی یعنی پاسٹ ٹینس بن چکی اسے فیوچر سٹک پر و بے بیلٹی کے صیغے میں کیوں باندھتے۔ حضور فیصلے لکھے جا چکے اور نتائج بھی اور پاکستان کو مملکت خداداد کہا جاتا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں ’’لِکھیاں نہ مڑیاں‘‘ کا دائمی قانون نافذ ہے۔ رہا وفاق کے خطرے میں پڑنے کا معاملہ تو اس پر فکر مندی کی ضرورت نہیں۔ وفاق بہت قیمتی شے ہو گا لیکن قومی مفاد اس سے کئی گنا کہیں زیادہ لازمی۔ جو دس سے بارہ سیٹیں آپ کو دی جانی طے ہوئی ہیں اس پر اکتفا کریں اور پیشگی شکریہ ادا کریں۔ ہاں کبھی نقشے الٹ پلٹ بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کا خطرہ تو ہے۔ ٭٭٭٭٭ حنیف عباسی کے کیس کے فیصلے پر کچھ لوگ چونکے ہیں اور کچھ لوگ اس بات پر بھی سر کھجا رہے ہیں کہ فیصلہ رات کو بارہ بجے سے کچھ ہی پہلے کیوں آیا۔ چونکنے کا جواز نہیں ہے۔ فیصلے کا اعلان شیخ جی کئی ہفتے پہلے کر چکے تھے۔ چونکنا ضروری تھا تو تب چونکتے۔ تنقید کے بجائے مثبت پہلو دیکھیں۔قومی مفاد میں شیخ جی کا پارلیمنٹ پہنچنا ضروری تھا۔ قومی مفاد کا یہ تقاضا کس حسن تقدیر سے پورا ہوا اس کی داد تو دیجیے(حسن تقدیر کو حسن تدبیر ازراہ کرم مت پڑھیے)