حکومت ریاست کا نمائندہ چہرہ ہوتی ہے۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ریاست موجود رہتی ہے۔ملک ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔حکمران اقتدار جبکہ ریاست اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد پریڈ گرائونڈ میں جب خط لہرا کر تحریک عدم اعتماد کو بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہوئے بعض سیاستدانوں کے دانستہ یا نادانستہ سازش کا حصہ بننے کی بات کی تو برادرم سعید احمد نے راولپنڈی سے یہ شعر لکھ بھیجا: نامہ برحال میرا ان سے زبانی کہنا خط نہ دینا کہ وہ اوروں کو دکھا دیتے ہیں نامہ بر اوروں کو دکھانے کی بات آئی تو ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ٹی وی چینلز کی سکرینوں سے لے کر حجام کی دکان تک ہر کوئی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ اگر وزیر اعظم نے ملکی مفاد میں فیصلے اتفاق رائے سے کئے ہیں تو پھر ریاست( سیدھے الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ) نے وزیر اعظم کو نتائج بھگتنے کے لئے اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟تحریک انصاف نے کارکن عمران خان کو قربانی کا بکرا بنائے جانے پر بپھرے پڑے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ایک صاحب نے تو اپنے مضمون میں یہاں تک گلہ کیا کہ فیض احمد فیض نے جو اشعار 1967ء میں لکھے تھے آج کی صورتحال پر صادق آتے ہیں اشعار یہ ہے: نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی ‘نہ کسی کو فکر رفو کی ہے نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ عدو کی ہے نہ غم نیا، نہ ستم نیا کہ تیری جفا کا گلہ کریں یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب یہ کسک دل میں کبھو کی ہے ایک مضمون نگار نے لکھا کہ جب جنرل ایوب خان فرنیڈز ناٹ ماسٹر لکھی اور ان کو اقتدار سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت ان کو بھی تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔بھٹو نے اسمبلی میں عدو کا نامہ پھاڑتے ہوئے جب یہ کہا تھا کہ امریکہ وہ ہاتھی ہے جو نہ بھولتا ہے نہ معاف کرتا ہے تو اس وقت بھی بھٹو کو پھانسی پر جھولنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا گیا۔عمران خان نے خط کیا لہرایا کہ ضیاء الحق سے لیکر بے نظیر بھٹو، نواز شریف مشرف تک کے تمام لگائے گئے زخموں کو یاد کیا جانے لگا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور عمران خان کے چاہنے والوں کی آنکھ تو اس وقت ہی پھڑکنا شروع ہو گئی تھی جب حکومت کے اتحادی اور ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے ٹی وی پر یہ کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت تو بچ سکتی ہے مگر عمران خان کی کسی صورت نہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنماء خالد مگسی کے پریس کانفرنس میں صحافی کے سوال کے جواب نے پاکستان کی عسکری قیادت سے خدا واسطے کا ویر رکھنے والوں کو سوشل میڈیا پر کیچڑ اچھالنے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے حکومت سے نکل جانے کے بعد ٹی وی پر کھلے لفظوں میں کہا جانے لگا کہ’’ باپ‘‘ کا ہاتھ سر سے ہٹ جانے کے بعد عمران خان کی حکومت کا جانا ٹھہر گیا۔ حکومت صبح گئی کہ شام گئی! پاکستان کا درد رکھنے والے حلقوں کو پریشانی عمران حکومت کے خاتمے کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ جس طرح میڈیا پر خط ،عمران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ان سے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ جسٹس وجہہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ عدم اعتماد میں وفاداریوں کے بدلنے سے 1958ء سے بھی بدتر نتائج برآمد ہوں گے۔ خط کو لے کر پاکستان میں جو حالات پیدا ہو چکے ہیں اور جس طرح یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو دھمکی ریاست پاکستان کو دھمکی ہے۔ ریاست بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوال ہی نہیں اٹھائے جا رہے بلکہ پیاز کے چھلکوں کی طرح تہ در تہ ریاست کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ اس سے ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسے نادانوں کو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ریاست ایسا کُل ہے جسے اجزا کھول کر دیکھنا شروع کیا جائے تو کچھ دکھائی دینا تو دور کی بات ہے کچھ سمجھ میں آنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔رہی بات قربانی کا بکرا بنانے کی تو قربانی کے بکرے اور قربان ہونے کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو اپنے افراد سے زیادہ اپنے اہداف عزیز ہوتے ہیں۔ ریاست کے لئے قربانی کا بکرا نہیں بنایا جاتا قربانی دی جاتی ہے۔سچ وہ سمندر ہے جو جھوٹ کے مردے کو وقت آنے پر اچھال دیا کرتا ہے۔ریاست اسٹیبلشمنٹ بالخصوص عسکری قیادت کے کردار پر جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ان کا جواب نا ماضی میں عسکری قیادت نے دیا نہ آج دے گی۔ صحیح اور غلط کا فیصلہ تاریخ کرتی ہے آج کے سوال کا جواب بھی تاریخ میں ہی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تو چلیے تاریخ میں ہی ڈھونڈتے ہیں۔ بھٹو نے پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا خواب دیکھنے کی پاداش میں جان دی مگر ریاست نے بھلے ہی بھٹو کو کھو دیا مگر ان کے خواب کو نہیں آج پاکستان دنیا کے نقشے پر جوہری قوت ہے۔بے نظیر بھٹو کو میزائل پروگرام کے آغاز کے جرم میں گھر بھیجا گیا مگر آج افواج پاکستان دنیا کے بہترین اور ہر قسم کے وارڈہیڈ لئے جانے والے میزائلوں سے لیس ہے۔ نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے کی قیمت حکومت کی صورت میں ادا کرنا پڑی مگر آج پاکستان کے دفاع کے گرد اسی جوہری پروگرام نے ناقابل تسخیر حصار بنایا ہوا ہے۔ جنرل مشرف دوغلی پالیسی کے نتیجے میں دبئی میں پناہ پر مجبور ہوں گے مگر اسی پالیسی کے نتیجے میں امریکہ کو شرمناک انخلا پر مجبور ہونا پڑا۔ بھٹو ،ضیاء الحق بے نظیر نواز شریف جنرل مشرف کے بعد اب عمران خان کا امتحان ہے، بھلے ہی عمران خان اور ان کے چاہنے والے جذباتی اور غصے کے ابال کے اثر میں ہیں۔ مگر عمران خان بھی وہی کریں گے جو ملک کے مفاد میں ہو گا اور ان کے بعد کی حکومت بھی وہی کرے گی جو ریاست کے مفاد میں ہو گا۔ حکمران بدلتے ہیں ریاست نہیں۔عمران کی حکومت ختم ہو سکتی ہے ریاست کی پالیسی نہیں ۔ ریاست کا غلامی سے نجات کے لئے خطے کے ممالک بالخصوص روس اور چین کے ساتھ شروع ہونے والا مشترکہ خوشحالی کا سفر جاری رہے گا۔ رفتار کم ہو سکتی ہے سفر نہیں رک سکتا۔