برف باری سے درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ ساتھ وادی کے قدرتی حسن کو چارچند لگ جاتے ہیں، برف سے ڈھکے درختوںکے جھک جانے سے ایسالگ رہاہے کہ شجرات الارض رب الکریم کے سامنے سجدہ ریزہوچکے ہیںجبکہ کشمیر کے تاج میں نگینہ قرار دی جانے والی دل جھیل بھی سردی کی شدت کے باعث کئی مقامات پر منجمد ہوچکی ہے۔ وادی کشمیر میں طویل خشک سالی کے بعد برفباری نے امیدوں کو ایک نئی جِلا بخش دی ہے، کیونکہ مسلسل خشک موسم کے سبب وادی میں خشک سالی کا سلسلہ ٹوٹ جانے سے آلودہ ہوائیں بھی صاف ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے اور ظاہر بات ہے کہ صحت عامہ کے حوالے سے لوگوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی۔ لیکن قابض بھارتی فوج کی بربریت لگاتاتارجاری ہے جواہل وادی کے لئے بدستورعذاب بنی ہوئی ہے ۔ ہمالہ کے دامن میں ابلتے ہوئے چشموں، آبشاروں، لالہ زاروں ، سر سبز شاداب کھیتوں ، زعفراں زاروں کے ہوشربا اور پر کشش قدرتی مناظر سے بھر پور سرزمین جسے بقول علامہ اقبال اہل نظر نے ایران صغیر سے تعبیر کیا ہے اور جس کی سرحدیں ہندوستان، چین ،افغانستان کے ساتھ ملتی ہے، قدیم عہد سے دنیا بھر میں مشہور ہے دنیا کا کوئی مقام اس کا ہمسر نہیں۔اگرکشمیر کو بر صغیر ہندو پاک کا سویٹڈر لینڈ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا اسکی رنگارنگ وادیوں اور اسکی دل فضا ٹھنڈی ہوائوں میں سانس لینے سے مردہ رگوں میں جان آجاتی ہے اس کے صحت افزا مقامات کی سیر سے مریض تندرست ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے بہتر روئے زمین پر کوئی مقام ہی نہیں اس کے ارد گردپہرے دار پہاڑ سبز وادی میں ملبوس کھڑے ہیں ۔کشمیر ان کے بیچ مین گویا پتھر کی انگو ٹھی میں زمرد کا نگینہ جڑا ہوا ہے ۔یہ خطہ بلا شبہ دنیا کا حسین ترین خطہ ہے پہاڑوںمیں چھپے ایک کثیررنگ خود رو پھول کی طرح ۔ جس کی نوک پلک صرف موسم نے سنواری ۔اس سے یورپ ،امریکہ ۔ وسطی ایشا کے پہاڑی علاقوں کی طرح کسی نے کھربوں روپیے خرچ کرکے سجایا نہیں۔ بلکہ یہ قدرتی طورپرسج دھج کے رونق افروزہیں۔بلاشبہ کشمیری کی خوبصورتی ،زیبائش اوردلکش مناظر برف کے نزول سے ہی منسلک ہے۔ چپے چپے پہ آبشار ، ہر طرف سایہ دار درخت ،عمدہ اور لذیذ میوو ں کے ڈھیر پڑے ہیں کیا کوہستان اور کیا میدان غرض تمام خطہ سدا بہار گلزار ،کوسوں تک سبزہ ہی سبزہ زار ہیں پھر سبزہ بھی کیسا گویا اس پر سفید موتی بکھرے پڑے ہیں زمین ایسی مخمل جیسی کہ اس پر سوئے رہنے کو جی چاہتا ہے پھر کیا مجال کہ کپڑوں پہ داغ لگ جائے ۔ایک ایسا خطہ ہے جو قدرتی مناظروں سے مالا مال ہے وادی کشمیرکہلاتا ہے جسے دنیا بھرمیں زمین پر جنت کا ٹکڑا کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے پوری دنیا کے لوگ بے تاب اور بے قرار رہتے ہیں ۔ہر وہ شخص جس نے کشمیر نہیںدیکھا اپنے آپ کو ادھورا سمجھتا ہے۔ مرنے سے پہلے کم از کم ایک بار اس کو دیکھنے کی ہر کسی کے دل میں آرزو اور تمنا ہوتی ہے اس کے قدرتی حسن اور جمال کو دیکھ کر ہر کوئی اس کا دیوانہ بن جاتا ہے اور ہر کوئی یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں نے کشمیر کی سیر وسیاحت کی ہے یا جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے کشمیر کے حالات دیکھے ہیں اسے متاثر ہوئے بغیر ہوئے نہ رہ سکے۔ کوئی بھی قلم کارکہ جس نے کشمیر کو دیکھا کشمیر کے حالات ، واقعات اور حادثات سے لا تعلق نہیں رہ سکتا اور پھر جب حالات و حادثات کی شدت ایسی ہو کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ یا کسی شعبے سے وابستہ کوئی بھی فرد متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تو قلم کار کا قلم حالات و واقعات کے ہی گرد گھومتا ہے ۔اردو زبان کو کشمیر میں یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں اس کے چاہنے والے اس کو دل و جان سے چاہتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں یہ زبان ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گی اور اپنے دلدادگان سے داد تحسین پاتی رہے گی۔کشمیر کو کشیر بھی کہتے ہیں اور کشور بھی کہا گیا ہے مورخیں کا خیال ہے کہ کشیرکشمیر کے چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ اور پانی ہی پانی تھا اور یہ ستی سر کے نام سے مشہور تھا۔ پھر ہزاروں سال پہلے اس کے شمال میں کچھ چٹانین کھسکیں ،کچھ مٹی کے تودے گرے اور پہاڑوں میں شگاف پیدا ہونے کے سبب قدرتی طور یا انسانی عمل سے پانی کی نکاسی ہوئی اور پانی بہہ نکلا کہیں جہلم سے ملا تو کہیں چناب سے ،کہیں راوی سے تو کہیں ستلج اور کہیں ولر کی شکل اختیار کی اور کشمیر کے خطے میں خشک زمین وجود میں آگئی اور یہ خطہ انسانی زندگی کے لیے ساز گار رہا ۔ کشمیر جس کا مقدر ابتدا سے ہی ظلم و جبر رہا ہے لیکن ہر ظلم و جبر کے اندر سے ہی آخر کار احتجاج اور بغاوت کی چنگاریاں بھی پھوٹتی رہی ہیں چنانچہ ظلم وبربریت، استبداد ،نسل کشی،جیسا یہ جان لیوا چلن ڈوگرہ راج کے زوال کا پیش خیمہ ہے،صدیوں سے غلامی کی صعوبتیں جھیلتی، امن و سکون کی خواہاںکشمیری قوم آخر کار ڈوگرہ راج سے آزادی کا پرچم بلند کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔1931ء سے لے کر1947ء تک کشمیر کی عوامی تحریک نہ صرف برصغیر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لی گئی۔انگریزوں اور ڈوگرہ عہد میں کشمیر میں جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس کی عکاسی کی جائے تو پوری صورتحال پردئہ فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔درایں اثناتقسیم برصغیر اورہندوستان کی انگریزسے آزادی کشمیرکے لئے ایک ایسا المیہ ثابت ہوئی جس کی دلدوز یادوں کا شکنجہ آنے والی نسلوں کو صدیوں تک کستا رہے گا۔چنانچہ بھارت کے ایک آزادملک بن کرابھرنے سے کشمیرایک بہت بڑے انسانی سانحہ کاشکارہوا، انسانیت سوز واقعات سے لبریزاس سانحہ کو اپنی آنکھوں کی آنکھوں کا دھواں سالہا سال تک گردو پیش کو دھند لاتا رہے گا ۔ تقسیم برصغیرسے ہندو پاک دونوں ممالک میں یک گو نہ اطمنان کی لہر دوڑادی مگر اس بد نصیب ریاست جموں و کشمیر کی تاریکی دور نہ ہو سکی،پہلے ڈوگرہ استبدادمیں گری پڑی تھی اوراب بھارتی استبدادنے اسے چہارطرف گھیرے رکھاہواہے۔ اس اتبدادکی شروعات عین ایسے موقع پرہوئی کہ جب کشمیر میں ڈوگرہ استبدادی دورکا خاتمہ عین قریب تھا لیکن اس کے ساتھ ہی نئے استبداد اور مظالم کا زمانہ شروع ہوا۔ بھارت نے انگریزسے آزادی حاصل کرنے کے بعد جوسب سے پہلاکام کیاوہ کشمیریوں کوبالجبرغلام بنیایاجاناتھا۔اس طرح کشمیر کے عوام نے صدیوں کی کے بعد جو آزادی کا خواب دیکھا تھا وہ محض ایک خواب ہی ر ہا۔جس کے نتیجے یہاں کے خواص و عوام دونوں طبقے کے انسان نفسیاتی طورپر بے بسی کا شکارہوگئے۔ یہ وہی کشمیر ہے جو کبھی جنت ارضی کے نام سے جاناجاتاتھالیکن بھارتی استبدادکے نتیجے میں اب اسی کشمیرمیں خون خرابا،فتنہ فساد،مار دھاڑ،قتل وغارت،آتش زنیاں،عصمت دریاںاور افرا تفری ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ گو کہ جس جنت کی فضائیں روحانی مہک سے معطر رہتی تھیں اسی جنت میںگولیوں اور دھماکوں کی گن گرج سنائی دینے لگی۔ہر طرف چیخ وپکار،تباہی،افراتفری،سڑکین سنسان ،گلی کوچے سرخ اور بربادی کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔انسانی خون جہلم کے پانی کی طرح بہنے لگا۔ہر کسی کے لئے ہر نیا دن ایک نیا جنم لے کر آتا ہے صبح کو گھر سے نکل کر شام کو صحیح سلامت واپس گھر پہنچنے کی امید کم ہی ہوتی ہے ۔پوری وادی عملی طور پر ایک میدان جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔بھارتی قابض فوج کی جانب سے گھروں پر چھاپے،گرفتاریاں،کریک ڈاون،کرفیو،ٹارچر اور بم دھماکے روز کا معمول بن گیا۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی لوگ اپنے ارادوں پہ اٹل، کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔بلکہ بندوقوں،گولیوں،توپوں کے سایے تلے اپنی زندگی کے تلخ اورمشکل ترین روزوشب گزارتے ہیں۔ کشمیر کی المناک صورتحال پر غمگین ہو کے قاری سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کتنے قریب ہیںدونوںزندگی اور موت کے ،اور گولیوں کی گن گرج میں زندگی کے ایام گذارنا ان کا معمول بن گیا ہے ۔ ان مشکل ترین حالات میں زندگی گزارنے کے بعد ہر ذی روح بے قرار،قلب بے چین،ذہن گھٹن کا قیدی،جگر تشویش کا بندھک، ہر آنکھ آنسو ذدہ،ہر لب پر رحم وکرم کی دعائیں ہوتی ہیں۔میڈل اورسٹارحاصل کرنے والے بھارت کے فوجی اہلکار یا عہدے یا اپنی انانیت، حاکمیت اور دولت کی آڑ میںکشمیریوں پہ ظلم و ستم اور زیادتی کرنے والوں نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ آخرچاردن کی زندگی جینے کے لئے وہ ایسا کیوں کرتے ہیں دراصل وہ سیاست کے مہرے بنے ہوئے ہیں جن کو کچھ خود غرض لوگ اپنی انانیت اور حاکمیت کے عوض خرید لیتے ہیں۔اسی لئے انہوں نے کشمیر کوایک جہنم کدہ بناکے رکھ دیاہے ۔ بھارتی بربریت نے وادی کشمیر کا سکھ چین تو کیا بلکہ مائوں کی جھولیاں خالی کر دی ،بہنوں کو بھایئوں کی محبتوں سے محروم،بیویاں اپنے شوہروں کے انتظار میں غرض کہ ہر طرف خزاں کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ یہ وہ حالات ہیں کہ جب کشمیرمیں صحت مند لوگوں سے زیادہ بیمار لوگ پائے جاتے تھے اور اتنے بیشمار دل کے مریض کہ حیرت ہو جاتی ہے۔ پبلک پارک قبرستانوں میں تبدیل ہوگئے قبرستانوں کے لئے زمیں کم پڑ گئی۔ہزاروں نوجوان غائب ۔ اس خوف و دہشت کے عالم میںاقوام متحدہ کاعالمی فورم تماشہ بین بنابیٹھاہے اوراسے کشمیریوں کی حالت زار پر رتی بھر ترس نہیں آرہا ہے ۔تاہم پاکستان نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیرکے حالات وواقعات کو صفحہ قرطاس پر لا کے کشمیریوں کے دکھ درد کی وکالت کرتے ہوئے عالمی برادری کو اس گھمبیر مسئلہ پر سوچنے کی ترغیب دی ہے اور ان کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں اور سچائی پر مبنی حالات اور واقعات کو عالمی برادری کے سامنے رکھاہے۔اس طرح پاکستان نے جہاںایک طرف عالمی برادری کو کشمیر کے متعلق زیادہ مثبت positive اور نتیجہ خیز حکمت عملی اپنا نے کا پیغام دیا ہے وہیں دوسری طرف اہل کشمیر کو بھی یہ باور کیا ہے وہ اپنی جدوجہد میں اکیلے نہیں بلکہ پاکستان کابچہ بچہ ان کا پشتبان ہے ۔ کشمیر ایک بتکدہ تھاچھٹی صدی ہجری میں ایک جلیل القدر،مردحق ،موحداعظم سید علی ہمدانی جن کو شاہ ہمدان اور سالار عجم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کشمیر کی سر زمین پر تشریف لاتے ہیں اور دین اسلام کی تبلیغ اشاعت کا کام بڑے پیمانے پر شروع کیا ان کے ساتھ اوربھی کئی سعادات وادی وارد ہوئے تھے اور کافی محنت شفقت سے دین کی آبیاری کرنے میں وادی کے مختلف علاقوں میں جٹ جاتے ہیں اور وادی بہت بڑی اکثریت ہندو مت کو چھوڑ کر مشرف بہ اسلام ہوئے اس سرزمین سر سبز و شاداب میں چاروں طرف نغمہ توحید گونجنے لگا اور اسلام کے نور سے یہ خوبصورت وادی منور ہوئی ۔ یہ کس نے بوئی ہیں چنگاریاں تیری زمینوں میں یہ کس نے آگ سی سلگائی ہے معصوم سینوں میں اگر فردوس بروئے زمین است ہمیں است ہمیں است ہمیں استسے دیکھنے والوں اور اس کے نتائج کو سہنے والوں