سیاسی اشرافیہ وزیراعظم عمران خان سے ناراض ہے اور ان کے خلاف متحد ہوگئی ہے۔ عمران خان ایک ایسے بلّے سے باؤنسر کھیل رہے ہیں جوٹوٹ چکا ہے۔سیاسی کلاس ان کا ساتھ چھوڑ چکی ہے یا چھوڑنے والی ہے۔ پاکستان کی سیاسی کلاس اقتدار کے کھیل میں مقتدرہ(اسٹیبلشمینٹ)کے بعد اہم ترین کردار کی حامل ہے۔ ان دنوں اس کی طاقت کا اظہار اپنے جوبن پر ہے۔ اسی ہئیت ‘ تاریخ اور خواص کا مختصرسا جائزہ دلچسپی سے خالی نہیں۔بعض لوگ سیاسی اشرافیہ کے لیے سیاسی کلاس کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ہم ادل بدل کر یہ الفاظ استعمال کرلیتے ہیں۔عام گفتگو میں سیاسی اشرافیہ کوسیاستدان کہا جاتا ہے لیکن ہر سیاستدان اس طبقہ کا حصّہ نہیں ہوتا۔بعض لوگ سیاسی میدان میں داخل ہوجاتے ہیں لیکن گھس بیٹھیے سمجھے جاتے ہیں۔ یہ مرکزی دھارے کے لیے آؤٹ سائیڈرز ہوتے ہیںجو اپنی سرگرمیوں‘ خطابت اور متحرک کردار کے باعث اپنے لیے سیاست اور قومی بیانیہ میں جگہ بنالیتے ہیں لیکن اشرافیہ کا جزو نہیں بن پاتے۔ ان کی مثال سوشلسٹ سیاستدان ‘ سیاسی ورکرز اور کچھ اسلام پسند نظریاتی سیاستدان ہیں۔آجکل لبرل‘ سیکولر جمہوریت کے علمبردار دانشور دوسری مثال ہیں۔یہ لوگ زیادہ تر این جی اوز‘ سوشل میڈیا اورانگریزی زبان کے اخبارات و رسائل کے ذریعے قومی بیانیہ کو متاثر کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیںلیکن مرکزی سیاسی دھارے میں شامل نہیں۔ پاکستان میں سیاسی کلاس کا اہم ترین اور مرکزی جزو الیکٹ ایبلز ہیں۔ یہ سیاسی کلاس کا نیوکلئس ہیں۔ بنیادی طور پر سیاسی طبقہ دیہی پس ِمنظر کا حامل ہے۔ جب پاکستان بنا تو ملک کی نوّے فیصد سے زیادہ آبادی دیہات میںرہتی تھی ۔ کراچی کے سوا سارے پاکستان پر دیہی پس منظر کی حامل روایتی اشرافیہ کی سخت گرفت تھی۔پنجاب میں بڑے زمیندار‘ جاگیر دار‘ برادریوں کے سربراہ‘ قبائلی سردار اور خوانین اپنے اپنے علاقوں میں سیاست کو کنٹرول کرتے تھے۔ انگریز حکمرانوں نے ان کی اپنے شریک کاروں کے طور پر آبیاری کی ۔ ان کو پروان چڑھایا تھا۔ان کو جدید تعلیم دلوانے اور کالا انگریز بنانے کو ایچی سن کالج ایسے ادارے بنائے تھے۔دو تین دہائیوں سے دیہی اشرافیہ نے ریاستی سرپرستی میں صنعتیں لگالیں۔ یہ بیک وقت زمیندار اور صنعتکارہیں۔ دیہی پس منظر پوری طرح ختم نہیں ہوا۔پیشہ ور سیاستدان کی مقامی سطح پر حمایت اس کے ملنسار ہونے اور اچھی پبلک ریلیشنز پر منحصر ہوتی ہے۔اپنے اپنے حلقوںمیں سیاستدان اپنی مخصوص حمایتی بنیاد کو مستحکم رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ڈیرہ داری کے ذریعے،لوگوں سے معاشرتی میل جول کرکے،یہ مقامی کلچر سے جڑے ہوئے لوگ ہیں۔ شادی بیاہ اور مرنے جینے کی رسوم میں شرکت‘ ذات برادری سے وابستگی اس بنیاد کو محفوظ بنانے کے اہم اجزا ہیں۔عام لوگ اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ کوئی سیاستدان ان کی بات سنے اور حکومتی اداروں میں اس کے جائز یا ناجائز کام کروانے میں اس کی مدد کرے۔ کم سے کم اس کے ساتھ سرکاری دفتر میں جا کر اسکی سفارش کرے۔ یہ کلاس حکومتی اداروں اور عوام الناس کے درمیان وچولے (ایجنٹ)کا کردار ادا کرتی ہے۔ سیاستدانوںکے لیے الیکشن میں کامیابی کی خاطر اب مقامی حمایت کافی نہیں رہی۔ شہری کلچر پھیل رہا ہے۔ شخصیت پرستی اور ہیرو ازم کی اہمیت ہے۔ شہروں سے مقبول ہونے والے سیاستدان اور نئی مقبول تحریکیں دیہی علاقوں پر اثر انداز ہونے لگی ہیں۔ ملک میں پچاس فیصد آبادی شہری بن چکی ہے۔ دیہات میں کیبل ٹی وی‘ سوشل میڈیا‘ انٹرنیٹ پہنچ گئے ہیں۔ شخصی ووٹوں کے ساتھ ساتھ پارٹی ووٹ اورقومی سطح کے پاپولر لیڈرز کے ووٹ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ روایتی سیاستدان اندازہ لگاتے ہیں کہ الیکشن قریب آنے پر کونسی پارٹی زیادہ مقبول ہے۔ حکومت بنانے کے لیے کس جماعت کے چانسز زیادہ ہیں۔ وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ الیکشن لڑنے کو اس پارٹی کا ٹکٹ مل جائے۔ کبھی ایک پارٹی میں کبھی دوسری میں۔ یہ ہماری سیاسی کلاس کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ انگریز آئے تو ان کے ساتھ شریک ِاقتدار ہوگئے۔ سکھوں اور ہندوؤں سے مل کر ان کے ساتھ یونینسٹ پارٹی بنا لی۔ کانگریس میں شامل ہوئے۔ جب عوام الناس میں قائداعظم کی مقبولیت بہت بڑھ گئی تو ہوا کا رُخ دیکھ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت میں ان کی تابعداری کی۔ اصل مسلم لیگ چھوڑ کر سرکاری کنوینشن لیگ میںشامل ہوگئے ۔ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آگئے توسیاسی اشرافیہ ان کی سرپرستی میں چلی گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لگایا۔ غیر منتخب مجلس شوریٰ بنائی۔ یہ اس میں شامل ہوگئے۔ اُنیس سو اسیّ کی دہائی سے ہماری سیاسی کلاس دو کیمپوں میں تقسیم تھی۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی۔ کچھ لوگوں کا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں روایتی سیاستدانوں کی علاقائی جماعتیں ہمیشہ سے موجود ہیں۔سیاستدانوں کی وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں۔ عمران خان کا سورج چڑھتے دیکھا تو ان کی کشتی میں سوار ہوگئے۔ اب اس سے چھلانگیں لگانے کو تیار ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ زمانہ ساز‘ موقع پرست اور عملیت پسند ہے۔ یہ اصولوں اورنظریات کے بکھیڑے میں نہیں پڑتی۔ اس کے مفادات سب سے مقدّم ہیں۔اسکے ارکان سوشلسٹوں کے ساتھ سوشلسٹ‘ اسلام پسندوں کے ساتھ مذہبی‘ اور لبرلز کے ساتھ لبرل بن جاتے ہیں۔ ان میں کمال کی مطابقت پذیری ہے۔ پانی کی طرح ہیں۔ جس برتن میں ڈالو اس کی شکل میں ڈھل جاتے ہیں۔ اپنی بقا کی حس بہت تیز ہے۔ یہ ملک سیاسی اشرافیہ کی چراگاہ ہے۔سیاسی طبقہ کو ایسا رہنما چاہیے جو عوام میں مقبول ہو۔ اپنے بیانیہ سے عوام کو راضی رکھے لیکن ان کے ذاتی مالی ‘ سیاسی مفادات کو فروغ دیتا رہے۔ اس طبقہ کا مفاد ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہ ہو۔ یہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ آئین اور قانون دکھاوے کے لیے ہیں۔ اس کے صرف اتنے حصہ پر عمل کیا جاتا ہے جو ان کے مفاد میں ہو۔ یہ لوگ سفارش ‘ اقرباپروری اور رشوت دیکر کام کروانے کو جائز سمجھتے ہیں۔ سفارش پر اپنے حلقہ کے لوگوں کو میرٹ کے بغیر سرکاری ملازمتیں دلواتے ہیں تاکہ ووٹ پکے ہوں۔ اپنے رسوخ سے انتہائی بدعنوان افسروں کی اہم عہدوں پر تقرریاں کرواتے ہیں تاکہ رشوت کی کمائی سے وہ ان کا پیٹ بھی بھرتے رہیں۔ ان کے ڈیروں کے اخرجات چلاتے رہیں۔ پولیس میں تھانیدار اور بڑے افسر ان کی مرضی سے مقرر کیے جائیں جو قانون پر عمل کرنے کی بجائے ان کا حکم مانیں۔ یہ طبقہ ٹھیکے داروں کی ملی بھگت کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔ چاہتے ہیں کہ سرکاری ٹھیکے ان کی سفارش پر دیے جائیں تاکہ آدھی رقم ان کی جیب میں جائے جس سے یہ عیش کریں اور الیکشن میںروپے پیسہ کا بے دریغ استعمال کریں۔ جو لیڈر ان کے ان بنیادی مفادات کو یقینی نہ بنائے یہ اسے چھوڑنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ سرپرستی کا کلچر ہے ۔ سیاستدان مختلف اوقات میں مختلف لیڈروں کو استعمال کرتے ہیں اور جب کوئی لیڈر نامقبول ہوجائے یا ریاستی مقتدرہ سے لڑائی کربیٹھے تو اسے اقتدار سے باہر نکال دیتے ہیں۔