اس میں کوئی شک نہیں کہ تفریح ہر انسان کی بنیادی، نفسیاتی اور جبلّی ضرورت ہے۔ غم اگر ہماری سوچ کو گہرائی بخشتا ہے تو ہنسی اور لطافت ہمارے جسم اور روح کو رعنائی و توانائی عطا کرتی ہیں۔ گھمبیر سے گھمبیر حالات میں بھی مسکراہٹ ہماری انگلی پکڑ کے زندگی کی خوشگوار پگڈنڈی پہ ڈال دیتی ہے۔ اگر آپ کو کبھی کسی فوٹو گرافر کے پاس جانے کا اتفاق ہوا ہے اور یقینا ہوا ہوگا، تو آپ بہ خوبی جانتے ہوں گے کہ آپ کی تصویر میں جو رنگ، ڈھنگ، آہنگ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے در آتے ہیں، وہ فوٹو گرافر کی سالوں کی مہارت، ہزاروں کی پس پردگی، لاکھوں کے کیمرے اور کروڑوں سے بنے ہوئے سٹوڈیو کے بس میں بھی نہیں ہوتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کہا کرتے تھے کہ قادرِ مطلق کی اس رنگا رنگ کائنات میں سُتے ہوئے چہروں اور بجھے ہوئے دلوں کا کوئی جواز ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج حضرتِ انسان نے سیاحت، فلم، ڈراما،تھیٹر، مزاح، خطاطی، مصوری،فوٹو گرافی، مطالعہ، کھیل، ڈانس کلب، کافی ہاؤسز، مشاعروں کی صورت تفریح و تہذیب کے ہزاروں طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔ اس وسیع مشغلہ سازی اور متنوع حیلہ جوئی کے باوجود ایک بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان سب حربوں میں ہنسی، مزاح ہی تفریح کی سب سے مرغوب اور کارگر صورتیں ہیں۔ مزاح کا کمال یہ ہے کہ یہ نہ صرف خود دلوں اور ذہنوں پہ فوراً چسپاں ہو جاتا ہے بلکہ یہ جس فلم، ڈرامے، گفتگو، کارٹون، تھیٹراور مطالعے میں شامل ہو جائے، اُسے بھی خوشگوار اور مزے دار بنا دیتا ہے۔ بقول لالہ بسمل: ماحول اس جہاں کا جو مغموم ہو گیا سُکھ چَین آس پاس سے معدوم ہو گیا دیدہ وروں نے ڈھونڈ لیا مسئلے کا حل ہنسنا ہنسانا لازم و ملزوم ہو گیا حکیم جی کا یہ قول تو ’آبِ ظَر‘ سے لکھنے کے قابل ہے کہ جس سنگ دل کے سنگ دل کو بم سے بھی نہ اڑایا جا سکتا ہو، اُس پر ایک بار ہنسی کا گولہ پھینک کر دیکھ لینا چاہیے۔ آج دنیا بھر کے سماجی، طبی، روحانی، نفسیاتی ماہرین و معالجین اس بات پہ متفق ہیں کہ انسانی امراض و مسائل کا جتنا تسلی بخش علاج ہیومر تھراپی سے کیا جا سکتا ہے، وہ کسی دوا، آپریشن، آکو پنکچر،کے بس میں ہی نہیں۔ اچھے معالج ہمیشہ سے مایوس مریضوں کے لیے ہومیو پیتھی، ایلو پیتھی سے زیادہ سمپیتھی کا نسخہ استعمال کرتے آئے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں عوام الناس کو روٹی روزی، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کامیڈی فلموں، شوخ تھیٹروں، مزاحیہ ڈراما سیریز/ سیریلز، پرینکس جیسے نت نئے حربوںکے ذریعے خلقِ خدا کی دل بستگی کا سامان بھی کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا کی چھیڑ چھاڑ، ذاتی گپ شپ کی محافل، مزاحی کتب، ظریفانہ مشاعروں،چنچل ڈراموں، سیاسی بیانات،حکومتی وعدوں،عدالتی فیصلوں کے ساتھ ساتھ اس وقت عوام و خواص کو باقاعدہ ہنسانے کے لیے مختلف ٹی وی چینل موجود ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک تو ہمارے ہاں ہر سال پیش کیا جانے والا حکومتی بجٹ، سیاست دانوںکے انکم ٹیکس گوشوارے اور پاکستان کے نظامِ حکومت کو جمہوریت کہنا بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ مشتاق احمد یوسفی تو ادیبوں اور سیاست دانوں کی دھڑا دھڑ لکھی جانے والی آپ بیتیوں کو بھی مزاح کے خانے میں رکھتے تھے۔ آج کل ہمارے ٹی وی چینلوں پہ متعدد ایسے کامیڈی شو چل رہے ہیں جن کا بظاہر مقصد، منشور اور معاہدہ ٹی وی چینلز سے بھاری معاوضہ لے کر لوگوں کو ہنسانا یا کم از کم ان کو ایک مثبت قسم کی تفریح فراہم کرنا ہے لیکن یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ ان میں بیشتر کامیڈی کامیڈی کھیلتے اینکروں اور فن کاروں کو مسکراہٹ اور ’مسخراہٹ‘ میں تمیز ہونا تو دور کی بات، لطافت اور کثافت کا فرق بھی معلوم نہیں… یہ تو گدگدی اور ڈگڈگی کی تفریق سے بھی نا آشنا ہیں… چھیڑ چھاڑ اور بے عزتی، نیز شرارت اور بدتمیزی میں جو کوسوں کا فاصلہ ہے، یہ اس سے بھی واقف نہیں۔ دولت کی ہوس اور ریٹنگ کی بیماری نے ان کے ہاتھوں معیار کو مقدار کا غلام بنا رکھا ہے۔ طمع کی کثرت اور شہرت کی حسرت نے ان کو یہ بھی بھلا دیا ہے کہ ابھی تو وہ نسل بھی موجود ہے، ففٹی ففٹی، الف نون، اطہر شاہ خان، انور مقصود، عمر شریف اور معین اختر کی ظرافت کا ذائقہ جن کے ذہنوں اور زبانوں پر موجود ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو شاید یہ بھی نہیں پتا کہ مزاح تو اندر سے پھوٹنے والی بشاشت کا نام ہے، جہالت کے حلق سے امڈنے والی غلاظت کا نہیں۔ جُگت تو الفاظ اور خیالات کی جادوگری سے پھوٹنے والاکرشمہ ہے، کھائے ہوئے نوالوں کی جگالی کا بدبودار عمل نہیں۔ ان نام نہاد کامیڈی شوز میں نوے فیصد ماچس مارکہ وہ لطیفے سنائے جاتے ہیں، جن پہ ہم نے پانچویں جماعت میں جتنا ہنسنا تھا، ہنس لیا تھا۔ کامیڈی کے ان خود ساختہ دانش وروں سے تو ہمارے دیہات کے میلوں ٹھیلوں میں پرفارم کرنے والے وہ اَن پڑھ راس دھاریے ذہین اور خلّاق تھے۔ مجھے یاد ہے ، ہم سکول میں تھے جب جنرل ضیاء الحق کے اسلامی نظام کے چرچے تھے۔ وہ دیسی نقال آنے والے دور کی متوقع اور تخیلاتی فلموں کے نام فی البدیہہ بولتے چلے گئے۔ موجودہ دور میں برساتی کھمبیوں کی صورت جنم لینے والے ٹی وی چینلز پر قہقہہ برداری اور ظرافت داری کی ذمہ داری کا بِیڑا شروع شروع میں معروف کامیڈین سہیل احمد اور عہدِ حاضر کے معروف شاعر جناب ظفر اقبال کے فرزندِ ارجمند آفتاب اقبال نے ایک ساتھ اٹھایا تھا۔ مقصد دونوں کا ایک اور نیک تھا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو سٹیج کی گفتگوسے ہٹ کے مثبت اور خوشگوار فیملی تفریح فراہم کی جائے۔ باشعور لوگوں کو دل فریب انداز میں محظوظ کیا جائے۔ شروع میں انداز ذرا اُکھڑا اکھڑا تھا، ہنسنے کی ساری ذمہ اری بھی ایک صنف نازک کے نازک کندھوں پر تھی۔ تفریح اور تربیت کے تناسب کا بھی تعین نہیں ہو پا رہا تھا۔ کچھ پرسینلٹی کلیش کا مسئلہ بھی کھڑا ہوا ہوگا، شاید اسی وجہ سے بہت جلد دونوں نے اپنے راستے جدا کر لیے۔ اس خلع کے باوجود تا دیر دونوں کے پروگراموں میں ایک صحت مندمقابلہ جاری رہا۔ بعض لوگوں کو دوسرے پروگرام کاپلڑا بھاری لگتا تھا، جس کی ایک وجہ تو یہ کہ سہیل احمد خود ایک ورسٹائل فن کار ہے ، اس وقت لطافت اور ظرافت کے بازار میں اس جیسا دوسرا دانہ میسر نہیں، دوسرے یہ کہ اس نے اپنی ٹیم میںایسے فنکار مستقلاً شامل کر لیے جو تہذیب اور بد تہذیبی کا فرق جانتے ہیں یا ان کی تربیت اس نہج پر کی کہ وہ اپنی حد سے تجاوز نہ کر سکیں۔حتیٰ کہ پروگرام کے سنجیدہ میزبان کو بھی کسی حد تک ترغیب آور بنا لیا۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کو ایک ہی پروگرام میں سہیل احمد کی سنجیدہ اور مزاحیہ پیشکش والی شتر گربگی ہضم نہیں ہو پائی۔ اسی طرح دیگر فن کاروں کی حیثیت بھی کبھی کبھی محض تابع مہمل کی سی لگنے لگتی ہے اور بھرا پُرا پروگرام ون مَین شو کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ (جاری ہے)