گردش دہر ہی کیا کم تھی جلانے کو‘ اوپر سے ایک اور تیر ہمارے سینے میں آ لگا ہے۔ دنیا کے ناپسندیدہ ترین پاسپورٹوں میں ہمارا نمبر تیسرا ہے۔ یہ اعزاز حکمرانوں اور سیاستدانوں کو زیادہ مبارک ہو‘ جو جہاں جاتے ہیں خود ’’منہ زبانی‘‘ اپنے ملک کا کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں اور پھر صدا لگاتے ہیں ؎ دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ بوٹا لائے گا ہینلے پاسپورٹ انڈکس کی رینکنگ کے مطابق اس وقت پسندیدہ ترین پاسپورٹوں میں جاپان پہلے نمبر پر ہے۔ گویا کوئی جاپانی تقریباً دنیا کے کسی ملک میں چلا جائے اسے جی آیاں نو کہا جاتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ باقاعدہ ویزے کے ساتھ سبز پاسپورٹ پیش کرتے ہیں تو ویزا آفیسر کے چہرے پر صاف لکھا ہوتا ہے ’’کدھر آ گئے او‘‘۔ پاسپورٹ انڈکس رپورٹ کے مطابق دوسرے نمبر کا اعزاز سنگاپور اور جنوبی کوریا کو ملا ہے۔ جاپان سے تعلق رکھنے والے مسافر دنیا کے 190 ممالک میں بلاروک ٹوک جا سکتے ہیں۔ وہاں یا تو انہیں ویزے کی ضرورت ہی نہ ہوگی یا پھر پہنچنے پر ویزا لگا دیا جاتا ہے جبکہ سنگاپور اور جنوبی کوریا کے شہری انڈکس میں دوسرے نمبر پر ہیں اور وہ دنیا کے 189 ممالک میں بلاروک ٹوک آ جا سکتے ہیں۔ ہم جب کبھی سنگاپور کی برق رفتار ترقی کی مثال دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ 1957ء میں یہ چھوٹا سا ملک مچھیروں کی ایک پسماندہ سی بستی کے علاوہ کچھ نہ تھا مگر آج یہ جدید ترین ملکوں کی پہلی صف میں بے حد نمایاں ہے‘ تو یار لوگ کہتے ہیں جناب! یہ تو ایک ننھا منا ملک ہے اس کے مسائل کم تھے مگر ہم تو 22 کروڑ ہیں اور ہمارے مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ اس سادگی بیان پر ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ چلئے حضور ہم سنگاپور کی مثال نہیں چین کی ترقی کی مثال پیش کردیتے ہیں‘ جو ہم سے کم از کم پانچ گنا بڑا اور دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ بات کم یا زیادہ آبادی کی نہیں‘ بات وژن اور ارادے کی ہے۔ پسندیدہ ملکوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آنے والا ایشیا کا ایک اور ملک جنوبی کوریا ہے، جی ہاں وہی جنوبی کوریا جو 1960ء کی دہائی میں پاکستان کی تیز رفتار ترقی کو رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ ہم اپنے توہمات و تعصبات میں گزشتہ نصف صدی سے ایسے الجھے ہیں کہ آج تک ہر چیز بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ پاسپورٹوں کی انڈکس ریٹنگ میں جرمنی اور فرانس تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان ممالک کے شہریوں کے لیے 188 ممالک کا ویزا درکار نہیں۔ امریکہ اوربرطانیہ اس فہرست میں چھٹے نمبر اور متحدہ عرب امارات 22 ویں نمبر پر ہے۔ یہ پاسپورٹ انڈکس کیا ہوتا ہے؟ پاسپورٹ انڈکس وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں کسی ملک میں معاشی و معاشرتی ترقی دیکھی جا سکتی ہے۔ جتنا کوئی ملک خوشحال اورترقی یافتہ ہوگا اتنا ہی اس ملک کا پاسپورٹ پسندیدہ ہوگا۔ اس سے مراد یہ کہ اس ملک کا شہری اگر ہمارے ہاں آئے گا تو یہاں بہت کچھ دے کر جائے گا جبکہ جتنا کوئی ملک پسماندہ ہوگا اتنا ہی اس کا پاسپورٹ ناپسندیدہ تصور ہوگا۔ اس رینکنگ سے ہمارے حکمرانوں کو اپنے ملک کی پسماندگی کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ ناپسندیدہ پاسپورٹوں میں پہلے نمبرپر عراق، دوسرے پر افغانستان اور تیسرے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ ہم نے جب کبھی جاپانی ماہرین سے ان کی تیز رفتار اور ہمہ جہت ترقی کاراز پوچھا تو وہ جواباً کہتے ہیں کہ ہماری ترقی کا راز صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے ’’تعلیم‘‘۔ ہم نے مختلف ذرائع سے اس راز کا کھوج لگایا۔ تو معلوم ہوا کہ ان کا جواب سوفیصد درست ہے۔ جاپان میں اکثر سکول سرکاری ہیں اور تھوڑے سے پرائیویٹ ہیں مگر سب میں ایک جیسی تعلیم ان کی اپنی زبان جاپانی میں دی جاتی ہے۔ جاپان کا معیار تعلیم اور نظام تعلیم ایسا ہے جس پر ریگن جیسا امریکی صدر بھی رشک کیا کرتا تھا۔ کیا شاندار نظام ہے۔ جاپان میں بچے کو سکول میں داخل کرانے اور گھر سے سکول پہنچانے اور وہاں سے واپس گھر لانے کی ذمہ داری گھر والوں کی نہیں سکول انتظامیہ کی ہوتی ہے جو نہایت شفقت اور ذمہ داری کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیتی ہے۔ میرا نہیں اندازہ کہ پاکستاان میں آپ کسی پی ایچ ڈی سے پوچھیں کہ ہمارا اقتصادی مسئلہ کیا ہے تو وہ آپ کو کوئی جواب دے پائے گا۔ وہاں کنڈر گارٹن سکول کے ننھے منے بچوں کو یہ بات یاد کرادی جاتی ہے اور سمجھا دی جاتی ہے کہ جاپان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس کوئی قدرتی وسائل اور خام مال نہیں۔ ہمارے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم دوسرے ممالک سے خام مال منگوائیں اور اپنے علم و فن سے اس خام مال سے مشینری اور کاروں جیسی اشیاء تیار کریں اور دنیا کو اچھے منافع پر فروخت کریں۔ تعلیم سے جاپان نہ صرف معیشت کو مضبوط کر رہا ہے بلکہ اپنی معاشرت کو بھی حسین و جمیل بنا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے گزشتہ چند سال کے درمیان جو تصوراتی محلات تعمیر کئے تو ہم بھی ان پرکشش تصورات کے سامنے نقد دل و جاں ہار بیٹھے۔ عمران خان نے تعلیم کے معیار کو بلندکرنے اور یکساں تعلیم رائج کرنے کے بارے میں جو نعرہ لگایا تھا وہ مجھے سب سے زیادہ پرکشش لگتا تھا۔ پہلے ادوار حکومت کے دوران سردیوں میں گیس کا بحران ہوتا تھا اس حکومت کا کمال یہ ہے کہ اس کے دور میں گیس کے بدترین بحران کے ساتھ ساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا بحران بھی اپنے عروج پر ہے۔ اس وقت حکومت کے سامنے دو سب سے بڑے چیلنج ہیں۔ ایک معیشت اور دوسرے گڈگورننس۔ معیشت کی خوش حالی تو دور کی بات‘ اس کی بحالی بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ان پانچ ماہ کے دوران سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق حکومت 2240 ارب روپے قرضہ لے چکی ہے اس قرضے میں 1334 ارب روپے غیر ملکی جبکہ 906 ارب ملکی قرضہ ہے۔ حکومت کے اقتصادی ماہرین کے علم میں ہوگا کہ اسٹیٹ بینک جتنے زیادہ روپے پرنٹ کرتا ہے اتنی ہی مہنگائی بڑھتی ہے۔ ان حالات میں حکمرانوں کو ان کے بلند بانگ دعوے اور ان کے پرکشش وعدے یاد دلانا ستم ظریفی ہوگی‘ مگر ہمیں محض یاد دہانی کے طور پر یہ ’’ستم‘‘ ڈھانا ہوگا کہ حضور آپ نے کروڑوں کو روزگار دلانے، لاکھوں گھر تعمیر کرنے اور دو اڑھائی کروڑ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ستم بالائے ستم کے طور پر حکمرانوں کو گرین پاسپورٹ کی پستی کو چھوتی ہوئی رینکنگ کی طرف بھی متوجہ کئے بغیر چارہ نہیں کہ پہلی اسلامی ایٹمی قوت کا نام تباہ حال عراق و افغانستان کے ساتھ آ رہا ہے۔