میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ عمران خان 2018میں بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے کے بعد اگر عوامی توقعات پر دس فیصد بھی پورا اترتے توآج دس کروڑ لوگ ان کے لئے سڑکوں پر ہوتے ، عمران خان نے مشکل معاشی وقت میں پاکستان کی حکومت سنبھالی اور اپنی کنفیوزڈ پالیسیوں سے ملک کی مشکلات میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ اس سے پہلے ن لیگ کی حکومت کی پرفارمنس بدتر تھی تو ان کی کارکردگی بدترین رہی۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر کے عمران خان حکومت پر گرجتے برستے ہوئے ملکی قرضوں کا بار بار ذکر کرتے تھے، وہ پریشان اور متفکر تھے کہ ان قرضوں کے بوجھ سے ملک کیسے نکلے گا لیکن ان کے دور حکومت میں یہ بوجھ کم کیا ہوتا مزید بڑھ گیا ۔اسٹیٹ بنک کے مطابق2018میں پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم.24 64 ارب ڈالر تھا جویکم جنوری2022کو83.99ارب ڈالر ہو چکے تھے۔ اس عرصے میں تجارتی خسارہ تین ارب ڈالر سے ساڑھے تین ارب ڈالر پرٹھہر گیا،عمران خان سمندر پار پاکستانیوں کے لئے انقلابی اقدامات کے داعی رہے ہیں۔پی ٹی آئی کی الیکشن مہم میںسمندرپار پاکستانیوںنے بڑا حصہ ڈالا ۔دل کھول کر عطیات دیئے لیکن حیر ت انگیز بات یہ کہ ان کے دور حکومت میں ترسیلات زر میں کم اضافہ ہوا۔ عمران خان سے پہلے ن لیگ کی دور حکومت میں ڈالر 100روپے کا تھا جس پر پی ٹی آئی کا موقف تھاکہ ڈالر کی اصل قیمت کچھ اور ہے لیکن اسے مصنوعی طور پرمستحکم رکھا جارہا ہے 2018میں جب عمران خان بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاوس منتقل ہوچکے تو ڈالر کی قیمت 124روپے 18پیسے تھی جو دسمبر 2021میں 177روپے ہوچکی تھی ۔ان کے دور حکومت کے اس عرصے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 30فیصد گراوٹ ہوئی، پی ٹی آئی حکومت میں ڈالر کی قیمت نے جو اڑان بھری تو آج تک جاری ہے یادش بخیر کہ 2022میں ڈالر کی قیمت 184روپے ہوچکی تھی ، خان صاحب کے دور حکومت میںمہنگائی کی بریکیں بھی فیل رہیں۔ 2018سے 2022تک محکمہ شماریات کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ گھی کی قیمت میں156،آٹے کی قیمت میں 52،دودھ کی قیمت میں 37اور دالوں کے بھاؤ میں 92فیصد تک اضافہ ہوا اور پھر اس کے بعد ’’بھان متی کے کنبے‘‘ نے تو کیلکو لیٹر فیل کر دیئے ، اب اگر حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے کیلکولیٹر میں جمع تفریق کی جائے تو یہ مشین بھی معذرت کر لیتی ہے۔ سابق دور حکومت میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ لڑکھڑا رہا تھا تو اب چاروں شانے چت ہے ،آج ڈالر 270 روپے کا ہے ،چند دن پہلے اسٹیٹ بنک کی جاری کی گئی ششماہی رپورٹ نے دل کی دھڑکن مزید تیز کر دی۔ چھ ماہ میں بجٹ خسارہ1ہزار683ارب روپے تک پہنچ گیا ۔ان چھ ماہ میں حکومت نے عوام کو نچوڑ نچوڑ کر بمشکل 4ہزار 698ارب روپے کے ٹیکس جمع کئے جبکہ اخراجات 6ہزار382ارب روپے کے رہے۔ اس آمدنی میں سے ہم نے صرف قرضوں کے سود پر 2ہزار573ارب روپے ادا کئے یعنی جتناکمایا تھا اس کا نصف تو سود میںچلا گیاباقی نصف سے کیا ملک چلے گا۔ نتیجہ خسارہ پورا کرنے کے لئے پھر ساہوکاروں کے پاس جانا پڑا ۔بیرونی ذرائع سے296ارب اورمقامی ذرائع سے 1ہزار979ارب روپے قرض لے کر کام نبیڑا گیا ۔ مجھے چھوڑیں میں کون سا صاحب علم ہوں لیکن ذراسی زحمت کر کے تاریخ سے پوچھ لیجئے اس طرح کے قرضوںنے راجوں مہاراجوں سے ریاستیں کیا دستار اور پاجامے تک چھین کر چادریں تھما دی تھیںکہ راجاصاحب ! تہبند باندھ کر ستر پوشی کر لیجئے ۔ معاملہ یہیں نہیں رکا، قرضوں کے جال میں پھڑپھڑاتی مملکت پر ہمیں آج بھی ترس نہیں آرہا۔ہماری ’’سیاہ سی‘‘ چالیں جاری ہیں ،آج کے زبردست کل کے زبردستوں اور آج کے زیردستوں کوہتھکڑیاں لگوا کر تماشہ بنا رہے ہیں۔ ایک ہی دن ملک کے طول و عرض میں مقیم نازک مزاج حساس شہری تھانوںمیں جاکر کسی کی تقریر پر گرفت کا پرچہ کٹوا رہے ہیں اور پھر ملزم شہروں شہروں گھومتا پھرتاہے ،حکومت ہوش کے ناخن نہیں لے رہی تو اپوزیشن نے بھی طے کر رکھا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے کسی بھی قیمت پر حکومت کا تختہ الٹنا ہے ، ایک طرف حال یہ ہے کہ ملک اب دیوالیہ ہوا کہ اب ہوا اور دوسری جانب عمران خان دوبارہ اسمبلیوں سے رجوع کررہے ہیں ۔اب کوئی بصد احترام جان کی امان چاہ کر پوچھے کہ حضور والا ، ان ایوانوں میں آنا تھا تو گئے ہی کیوں تھے ؟ ان آنیوں جانیوں کی قیمت 61ارب روپے ٹھہری ہے جو وہ غریب شہری چکائے گا جس کے پاس بیچنے کے لئے گھڑی تک نہیں! لطیفہ نہیں کہ پہلے اسپیکرقومی اسمبلی استعفے قبول نہیں کر رہے تھے اب استعفے قبول ہوئے تو زمان پارک میں مورچہ زن خان صاحب عدالت جا پہنچے کہ انہیں روکا جائے ہمارے استعفے قبول نہ کئے جائیں ۔۔۔پہلے خان صاحب نے اعلان کیا کہ ضمنی الیکشن میں وہ تن تنہا مقابلہ کریں گے خدا خدا کرکے وہ اس بات پر رضامند ہوئے ہیں کہ چلو یہ فیصلہ واپس لیا۔جنا ب کا یہ احسان قوم کی پیشانی پر لیکن انتخابات کے اس کھیل کی قیمت میں اورعام پاکستانی کیوں چکائے؟ الیکشن کمیشن نے تحلیل کی گئی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لئے57ارب روپے اور مجموعی طو ر پر 61ارب روپے مانگے گئے ہیں ۔کسی نے سوچا ہے کہ آٹے کے لئے لگنی والوں قطاروں میں دل کے دورے سے مرنے والوں کی قوم اس ’’عیاشی‘‘ کا انتظام کیسے کرے گی ؟خدا کا واسطہ ہے یہ وقت ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہونے کا نہیں، پاکستان کے لئے کھڑے ہونے کا ہے۔حضور! یہ ملک ہے تو آپ کی گاڑیوں پر جھنڈے، ہٹو بچوکی آوازیں اورکنالوں کے محل کوٹھیاں ہیں،ملک نہیں توان رونقوں کا ہی سوچ لیں !