بار بار سوچتا ہوں کہ اس ملک کے مسائل کا حل کس بات میں ہے۔ کیا ہمارے نظام میں کوئی خرابی ہے یا قیادت میں کمی ہے۔ آخر اس کا علاج کیا ہے۔ نظام کیسے بدلا جا سکتا ہے یا قیادت کہاں سے لائی جا سکتی ہے یا پھر ہم بحیثیت قوم ہی ایسے ہیں کہ اسی مقدر کے سزاوار ہیں جوہم پر عذاب الٰہی کی شکل میں مسلط کر دیا گیا ہے۔ ہم کاہل ہیں‘ سست ہیں‘ مذہب سے دور میں‘ بددیانت میں‘ جھوٹے ہیں۔ کیا خرابی ہے ہم میں۔ آخر سوچنا تو ہے ہم کب تک ان اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ سچ پوچھئے تو ہماری کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ ہمارے سارے ادارے تباہ ہو چکے ہیں جو تباہ نہیں ہوئے وہ ان کاموں میں پڑ گئے ہیں جو ان کے کرنے کے لیے نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جنت کا راستہ اچھی نیتوں سے اٹا پڑا ہے ۔ ہو سکتا ہے سب کچھ حب الوطنی کے جذبے سے ہو رہا ہو مگر یہ سب کچھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں بحث ہوتی تھی کہ ہمیں بار بار جمہوریت کی پٹڑی سے اتارا جاتا رہا جس کی وجہ سے ہم درست راہ پر نہیں چل سکے۔ہرکوئی اس کا الزام سیاست دانوں کو دیتا کہ وہ حکومت چلانے کے اہل نہ تھے‘ کوئی فوج کو مورد الزام ٹھہراتا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کی بنا پر بار بار ملکی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ، میری بلا سے‘ اس کا کون ذمہ دار ہے کہ ملک کی ایسی تیسی ہو گئی ہے۔ ہم انگریز کو گالی دیتے ہیں مگر وہ ہمیں ایک ایسی سول سروس اور ایک ایسی عدلیہ دے کر گیا تھا جس پر کسی حد تک انحصار و اعتبار کیا جا سکتا تھا۔ سول سروس تو خیر تباہ ہوئی‘ کیا اس وقت کوئی ہے جو سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنی عدلیہ کی گواہی دے سکے۔ ملک میں کچھ بھی تو باقی نہیں بچا۔ اب کیا کیا جائے۔ برا نہ مانئے‘ نہ گھبرا کر اچھل پڑیں۔ اس ملک کا علاج انقلاب میں ہے۔ وہ انقلاب نہیں جیسا چین‘ روس‘ ایران یا فرانس میں آیا تھا بلکہ ایک مکمل تبدیلی جو ناگزیر نظر آتی ہے۔ دیکھئے ہم ۔جس راہ پر چل پڑے وہ ہمارے لیے بعد میں سوہان روح بن گیا۔ تقسیم ہند کے وقت درست طور پر ہم جہاں برطانوی سامراج کے خلا ف تھے، وہاں روس کے کمیونسٹ انقلاب کے بھی حامی نہ تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ بھی درست راستہ نہ تھا۔ بھارت نے البتہ یہ راستہ اپنایا اور برسوں ترقی کے سفر سے دور رہا ہے۔ ہماری قیادت کو اس وقت بجا طور پر امریکہ اچھا لگا۔ لیاقت علی خان پر الزام نہ دیں‘ ہمارے قائداعظم بھی یہی سمجھتے تھے اور شاید پوری قوم میں اس کی قائل تھے۔ تاہم یہ مشورہ کس نے دیا کہ ہم امریکہ کی طفیلی ریاست بن جائیں‘ اس کی مجھے خبر نہیں۔ ہم امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں میں شامل ہو گئے اور اس طرح شامل ہوئے کہ ہم ایک سکیورٹی سٹیٹ بن کر رہ گئے۔ سینٹو اور سیٹو کی ایشیا میں وہی حیثیت تھی جو یورپ میں نیٹو کی تھی۔ ان معاہدوں میں ہمیں کیسے شامل کیا گیا‘ اس پر خاصا کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ہمارے ایک وزیر خارجہ جب سیٹو میں شمولیت کے معاہدوں پر دستخط کر رہے تھے تو ملک میں کابینہ کو خبر تھی نہ کسی اور کو۔ سب فیصلے کیسے ہوتے تھے اور کہاں سے ہوتے تھے‘ اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ چند افراد کا ایک ٹولہ ملک کے مقدر کے فیصلے کررہا تھا۔ چاہتا تو وزیراعظم کو برطرف کردیتا تو کسی کو امریکہ سے بلا کر وزیراعظم بنا دیتا۔ یہ سب کیسے ہوتا تھا۔ سکندر مرزا‘ ملک غلام محمد اور ایوب خان کیونکہ ملک کے اصل مالک بن بیٹھے تھے۔ اس کی کسی کو خبر نہیں۔ یہ تو پتا چلتا رہا کہ PL480 کے تحت امریکہ سے گندم آتی رہی اور بٹر آئل کی شکل میں سکولوں میں گھی تقسیم ہوتا رہا۔ خشک دودھ کے ڈبے بانٹے جاتے رہے مگر یہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ ہم نے بڈ بیر کا اڈہ امریکہ کو دے رکھا ہے‘ صرف اس وقت معلوم ہوا جب خروشیف نے اس پر سرخ نشان لگایا۔ مشرف کے زمانے کے اڈوں کا بھی ہمیں بعد میں علم ہوا۔ تصویر کا یہی ایک رخ نہیں‘ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ہماری دفاعی ضروریات کیسے پوری ہوتی رہیں۔ امریکہ نے ہمیں اپنا غلام بنائے رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی جب ہم نے 65ء میں بھارت سے اپنا حق چھیننا چاہا تو ہماری امداد بند کردینے کا اعلان یہ کہہ کر کیا گیا کہ ہم نے روس کے خلاف تیار کیا تھا بھارت سے لڑنے کی اجازت نہ دی تھی۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی شمولیت اس شرط پر تھی کہ چرچل اور ٹرومین میں یہ طے پا گیا تھا کہ برطانیہ اپنی نو آبادیاں آزاد کردے گا تو اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ امریکہ سامراج کے خلاف تھا بلکہ یہ کہ وہ ایک نئے اندز کے سامراج کی بنیاد رکھناچاہتا تھا۔ یہ جو سپر پاور کا لفظ ہے یہ اسی نئے سامراج کی علامت ہے۔ اس کے آغاز پر بحث چھڑی تھی خود امریکہ کے اندر بھی کہ امریکہ ریپبلک ہے یا جمہوریہ ہے یا پھر ایمپائر یعنی سامراج۔ تو یہ بات طے سمجھو کہ ہم اس وقت امریکی سامراج کے عہد میں جی رہے ہیں۔ ہمارے لیے صرف ایک بات اچھی ہوئی کہ ہم نے اول روز ہی سے چین کو تسلیم کرلیا تھا۔ ایک طویل عرصے تک جب دنیا صرف تائیوان کے جزیرے کو چین مانتی تھی اور اقوام متحدہ صرف اسے حق نمائندگی اور ویٹو کا استحقاق دیتی تھی ہم چین کو تسلیم کر چکے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے قریب آتے گئے۔ یہ کسی کا انفرادی کارنامہ ہے یا حالات کا تقاضا یا تاریخ کا سفر کچھ بھی کہہ لیجئے۔ اب جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا مسائل کا حل یہ ہے کہ اسے سکیورٹی سٹیٹ کے پیراڈائم سے نکال کر ویلفیئر سٹیٹ بنا دیا جائے تو نہیں جانتے اس کا مطلب کیا ہے۔ امریکہ کہتا ہے اب لاکھ تم مرے نان نیٹو اتحادی نہیں ہو‘ اور بھی کسی دفاعی معاہدے میں شریک نہیں ہو اور یہ کہ بھارت میرا سٹریٹجک پارٹنر ہے مگر تم پھر بھی میرے غلام ہو۔ روگردانی کرو گے تو پیس کر رکھ دیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سکیورٹی سٹیٹ کے اسی تصور کے ساتھ ہماری معیشت بھی جڑی ہوتی ہے اور اس معیشت کا انحصار بڑی حد تک ہماری خارجہ پالیسی سے ہے۔ غور کرو تین سال پہلے ہم کیسے تیز رفتار ترقی کر رہے تھے۔ سی پیک کے راستے پر آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ پھر کیسے ہمیں روکا گیا اور ہمیں پیس کر رکھ دیا گیا۔ ہم اپنے دفاع میں اس کے محتاج کیا ہوئے اس نے ہماری معیشت پر بھی مشکیں کس دیں اور آپ دیکھ ہی رہے ہیں خاص طور پر سی پیک کے تناظر میں کہ معیشت کا تعلق بھی خارجہ پالیسی سے ہے۔ ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اسی خشت اول کو بنیاد بنا کر ایک کج دلدار بنانے کا نتیجہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔ یہ راستے سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ نہیں‘ نہ سکیورٹی کے اداروں کے پاس نہ کسی اور ادارے کے پاس‘ سیاست دانوں کا ہر روپ آپ نے دیکھ لیا۔ عدلیہ کی تاریخ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ایسے میں ہمارا سارا نظام بھی اسی کاطفیلی ہے تو ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جو ہماری ریاست کا سارا پیرا ڈائم بدل دے۔ درست خارجہ پا لیسی جو کسی کو دشمن نہ بنائے بغیر ہمیں نئی راہوں پر ڈالے۔ استحصالی سامراج سے ہمیں چھٹکارا دلائے۔ شاید کوئی آ ئوٹ آف باکس حل ہو اس مسئلے کا۔ مثالیں بھی دے سکتا ہوں مگر سامراج ہمیں آسانی سے چھوڑے گا نہیں اور اس سے چھٹکارا پائے بغیر معاملات طے نہیں ہوں گے، یہ کیسے ہوں۔ یہ بہت مشکل مسئلہ ہے۔ ریاست پاکستان نے طے تو کرلیا ہے کہ اس کا سٹریٹجک پارٹنر اب چین ہے مگر ہمارے طے کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ ہم اس حصار سے اتنی آسانی سے نہیں نکل سکتے۔ دل چاہتا ہے یہاں سورہ رحمن کی ایک آیت پڑھوں جس کو سن کر مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور بتائوں ہم اس حصار سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ اس وقت آپ صرف یہ کہہ لیجئے انقلاب‘ انقلاب انقلاب۔