کراچی میں بارش شہری سیلاب کی صورت اختیار کر گئی توشہریوں نے سوشل میڈیا ان و یڈیوز سے بھر دیا جس میں نہ صرف گلیوں میں گاڑیاں ڈوبی نظر آتی ہیں بلکہ گھروں میں فرنیچر بارش کے پانے میں تیرتا دکھائی دیتا ہے۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ خوشی سے نہیں کیا کہ کراچی کے نالوں کی صفائی کا ذمہ NDMA کے حوالے کیا اور یہ احکامات بھی جاری کیے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کراچی کے نالوں کی صفائی کا کام فوج کی نگرانی میں کرے گی۔ کیوں کہ بات صرف گندے نالوں کو قابل نکاسی بنانے کی نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کراچی کے پانچ سو نالوں پر غیرقانونی قبضے ہیں۔ کہیں لینڈ مافیا نے اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھائی ہے اور کہیں لوگوں نے نالوں پر مکانات اور دکانیں تعمیر کر دی ہیں۔ اس صورت میں ضروری تھا کہ ان قبضوں کو ختم کرانے کے لیے فوج آگے آئے۔ حالانکہ یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم عام کاموں کے لیے فوج کو بلاتے ہیں۔ یہ کام پولیس کا تھا مگر جب پولیس لینڈ گریبنگ میں ملوث ہو تو وہ یہ کام کس طرح کرسکتی ہے؟ اس طرح اس بار یہ کام بھی فوج کو دیا گیا۔ جب کہ اس کام کی مہارت کے حوالے سے این ڈی ایم اے کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا۔ جب وفاقی حکومت کی طرف سے اس اقدام کا اعلان ہوا تب حکومت سندھ کی بند آنکھیں کھل گئیں اور انہیں محسوس ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ جب بند نالے رواں ہوکر بہنے لگیں تب موجودہ صوبائی حکومت بھی ان میں بہہ جائے۔ اس لیے کراچی کے سلسلے میں بہت شور پیدا ہوا۔ یہ شور اپنے آپ پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ شور پیدا کروایا گیا۔ کسی نے تو لندن میں بیٹھے ہوئے سیاسی یتیم کے کان میں ایک اورسیاسی سازش بھری تقریر کی فرمائش کی ہوگی۔ اس کے بعد وہ تقریر سوشل میڈیا پر تیرنے لگی جس میں لندن والے سیاسی یتیم نے یہ انکشاف کیا کہ کراچی کووفاق کے حوالے کیے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیںکہ وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلسل مورد الزام ٹھہرایا جاتارہا ہے کہ وہ سندھ میں کوئی کام نہیں کرتی مگر جب وفاقی حکومت سندھ میں کام کرنے کے لیے آتی ہے تو مداخلت اور سازش کا شور برپا ہو جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ حالانکہ وفاقی حکومت نے متعد بار حکومت سندھ کو ہدایت کی کہ وہ کراچی کی صفائی کے سلسلے میں اپنا فرض ادا کرے۔ مگر کبھی ملک ریاض کو آگے لایا جاتا رہا اور کبھی کسی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کی کوشش کی جاتی رہی۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کی عدم دلچسپی اور دوسری طرف متحدہ کی نااہلی، ان دونوں نے مل کر کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا۔ کراچی کے لیے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اس لیے اس میں کچرا زیادہ پیدا ہوتا ہے مگر کیا دنیا کے دوسرے ممالک میں بڑے شہر نہیں؟ وہ شہر آئینے کی طرح چمکتے ہیں اور کراچی کے آئینے بھی صاف نہیں رہ سکتے۔ یہ حقیقت ہے کہ کچرہ ہر گھر ، دکان اور ہر ہوٹل سے آتا ہے مگر وہ اپنی مقرر جگہ پر کیوں نہیں جاتا؟ اس کا سبب نااہلی اور کرپشن ہے۔ کراچی میں کچرے کا مسئلہ آج کا نہیں ہے۔ کراچی میں صفائی ستھرائی کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ جب ایم کیو ایم آپریشن کی وجہ سے غائب ہوگئی تھی؛ اس وقت ہر چیز کا اختیار پیپلز پارٹی کے پاس تھا۔ کیا ان دنوں میں کراچی کی رونقیں لوٹ آئیں؟ کیا اس دور میں کراچی کی روشنیاں جگمگائیں؟ کیا اس دور میں کراچی صفائی کے سلسلے میں ماضی کی مثال بن گیا؟ اور جب پرویز مشرف کی دور میں صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورا سندھ ایم کیو ایم کے ہاتھ میں تھا تب کراچی کے حالات کیسے تھے؟ کیا اس وقت کراچی پرامن اور صاف شہر بن سکا؟ اگر نہیں تو پھر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم ہو یا پیپلز پارٹی ان دونوں جماعتوں نے کراچی کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کراچی میںاس وقت سب سے بڑا مسئلہ کچرے کا ہے مگر ایک وقت ایسا تھا کہ لوگ کچرے کا تذکرہ تک نہیں کرتے تھے۔ کیوں کہ اس دور میں کراچی کا نمبر ون مسئلہ امن امان کا تھا۔ جب جان خطرے میں ہو تو کچرا کون دیکھتا ہے۔ اس وقت کراچی کرائم کے کچرے سے بھرا ہوا شہر بن گیا تھا۔ وہ دن خالی نہیں ہوتا تھا جس دن دس پندرہ سے کم لوگوں کی لاشیں شہر کی گلی کوچوں سے نہ اٹھائی جاتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی کے سلسلے میں ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا محاورہ زبان زد عام و خاص ہوا کرتا تھا۔ جرم کی اس گندگی کو کس نے صاف کیا؟ سب جانتے ہیں کہ کراچی کو بدامنی کی آگ سے نکال کر باحفاظت شہر بنانے میں صرف اور صرف فوج کا کردار تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سندھ کے وزیر اعلی رینجرز کے قیام میں توسیع کی فائل پر دستخط کرنے سیِ انکار کیا کرتے تھے۔ مگر فوج نے کبھی سیدھی اور کبھی ٹیڑھی انگلی استعمال کرتے ہوئے کراچی کو محفوظ شہر بنانے میں کامیابی حاصل کرلی۔اس شہر میں جرم کی گندگی کو صاف کرنے میں فوج کا کردار ہے ۔ وہ حکومت جو فوج کے کام میں روڑے اٹکاتی اور ایک ایک مسئلے پر شور کرتی ۔ جس حکومت نے امن کے قیام کے سلسلے میں فوج سے کوئی تعاون نہیں کیا وہ حکومت امن قائم کرنے کا کریڈٹ لینے کے لیے سرگرم ہوگئی۔ فوج نے کراچی میں امن کی بحالی کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا اس کے بارے میں اس نے کچھ نہیں کہا۔ کیوں کہ فوج کی نظر میں یہ کام اہلیان کراچی پر احسان نہیں تھا۔ فوج نے یہ کام فرض سمجھ کر کیا تھا ۔ اس وقت بھی سب کو یقین ہے کہ اگر کراچی کے نالوں کی صفائی فوج کی نگرانی میں ہو رہی ہے تو یہ کام بہترین طریقے سے ہوجائے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فوج کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ کچرے کی جڑ کہاں ہے؟ کچرے کی جڑ پہلے کرائم میں تھی اور اب کچرے کی جڑ کرپشن میں ہے۔ کرپشن صرف یہ نہیں ہوتی کہ کسی بڑے منصوبے کا ٹھیکہ اس ٹھیکیدار کو دیا جائے جس نے سب سے زیادہ کمیشن دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کراچی کی گندگی میں سیاست کے کردار سے کون انکار کر سکتا ہے؟ سیاسی جرم صرف یہ نہیں کہ کسی جماعت کو غیر مقبول کرنے کیلئے شہر کے اہم جگہوں پر گٹروں میں پتھر اور بوریاں ڈالی جائیں مگر سیاسی جرم یہ بھی ہے کہ جب صفائی والی گاڑی یا صفائی والا عملہ سیاسی مخالف کے علاقے میں نہ بھیجا جائے اور اس علاقے کے عوام کو تنگ کیا جائے تو یہ ناقابل معافی جرم ہے۔اب جب فوج کی نگرانی میں ہر قسم کی گندگی صاف ہوجائیگی تب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ان دنوں کو یاد کریں گی جن دنوں کے دوران وہ کچرے کی سیاست کیا کرتی تھیں۔