تاریخ کشمیرکا ہرورق کشمیری مسلمانوں کے لہوسے تربترہے او ر اس کا ہر باب رل ادینے والا ہے۔ اسی خونین تاریخ میں سے ایک آج ہمارا موضوع ہے یہ ایک ایسی المناک کہانی ہے جوآہوں ،سسکیوںاوردرد و الم سے عبارت ہے۔یہ داستان تین عشروں پرمحیط ہے۔ یہ جموں و کشمیر کے طول وعرض کی انسانی بستیوںکی یکساں داستان غم ہے ۔ یہ درد ناک داستان ا ن ہزاروں کشمیری نوجوانوںکی ہے جنہیں قابض فوج نے ان کے گھروں سے اور ان کے اہل خانہ کے سامنے گرفتارکرکے لاپتہ کر د یا ہے ۔ ان نوجوانوں کے لواحقین میں سے چند ایک کوآپ ہمار ی سکرین پردیکھ رہے ہیںجوعالمی اداروں سے فریاد کناں اوربھارت پرماتم کناں ہیں۔ یہ وہ مائیں ہیں کہ جن کے بیٹوں کوقابض فوج نے ان کے سامنے ان کے گھروں سے گرفتار کیا اورپھر وہ لاپتہ کر دیئے گئے۔ان میں وہ نیم بیوائیں بھی شامل ہیں کہ جن کے شوہروں کو ان کے سامنے گرفتار کرکے بے نام ونشان بنا دیاگیا ہے ۔ 1990ء سے آج تک 10ہزار سے زائد کشمیری نوجوان کو قابض بھارتی فوج اوراس کی جاسوس ایجنسیوں نے محض اس جرم کی پاداش میں گرفتارکر کے گم کردیا کہ وہ کشمیرکے غیور مسلمان ہیں۔ وہ ایسے بے نام ونشان کردیئے گئے کہ برس ہابرس گزرنے کے کے باوجود آج تک ان کاکوئی پتا نہ چل سکا۔ ان کی گمشدگی ایک ایسا سربستہ راز ہے جوصرف اورصرف قابض بھارتی فوج اور بھارتی جاسوس اداروں کو پتا ہے کہ جنہوںنے انہیںگرفتار کر کے لاپتہ کر دیا۔گزشتہ تیس برسوں کے اس طویل سفر کے دوران ایسے10ہزار سے زائد گمشدگان کے لواحقین اور متاثرین اپنے پیاروں کی تلاش میں لگاتار اور مسلسل کمربستہ ہیں۔ قابض بھارتی فوج کے ہاتھوںلاپتہ کشمیری نوجوانوںکے خاندانوں کادکھ بے عنوان ہے۔کشمیرکے یہ خاندان امیداورنا امیدی کی کربناک حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ خوشی ایسے خاندانوں کے لئے گم گشتہ شئے ہے۔ یہ خاندان انتظارکے کرب سے گزر رہے ہیںاورانتظار ایک تکلیف دہ اور اعصاب شکن عمل کا نام ہے ۔اس کرب کو وہی سمجھ سکتا ہے کہ جس نے لمحوں کوہفتوں میں، مہینوں کو برسوں میں اور برسوں کو عشروں میں بدلتے دیکھا ہو اور جسے پلک جھپکنے کے عمل کو صدیوںکا سفرمعلوم ہوتاہو۔اپنے پیاروں اوراپنے عزیزوںکی دشمن کے ہاتھوںجبری گمشدگی ایسا روگ ہے جو انسانوں کو دیمک کی طرح اندر سے ہی اندرچاٹ چاٹ کر کھوکھلا کر دیتا ہے اورپھرکسی روز فلک بوس برگد یا دیودار جیسا قدوقامت کاحامل درخت بھی تنکے کی طرح گرکرچور ہوجاتاہے ۔ قابض بھارتی فوج کے ہاتھوںلاپتہ کشمیری نوجوانوں کی بے شمار مائیںاپنے گھبرو جوان، اپنے جگرگوشوں کے فراق میں نقد جان کھو بیٹھی ہیں اورابد کی راہ لیکرآخرت سدھار گئیں۔ ہزاروں بہنیں اپنے کڑیل اورجوان رعنا بھائیوں کے انتظار میں دہلیز پرنظریں جمائے جیتے جی موت کے کرب سے گزررہی ہیں۔ لاپتہ کشمیری نوجوانوں کے والدین صبر ایوبی کی عملی تصویر بنے ہوئے آنسوبہا رہے ہیں اور آنسوئوں کی روانی اوربہائو نے ان سے ان کی بینائی چھین لی ہے ۔اسی عالم میں ان میں سے بے شمار والدین عدم سدھارگئے ۔ بے شمارایسی نیم بیوائیں نہایت ہی سنگین حالات اور غم کے عالم میںگوش بر آواز ہیں کہ شائد ان کے سرتاج اپنے گھر لوٹ آئیں گے اوران کی اوراپنے بچوں کا سایہ بن کران کی کفالت کریںگے ۔ ان میں سے ایسی بھی متاثرہ مائیں ہیں کہ قابض بھارتی فوج نے جن کے ایک سے زیادہ بیٹے لاپتہ کردیئے ہیںاور وہ ان کاراستہ تک رہی ہیں۔ایسی نیم بیوائیں بھی ہیںجن کے چار، چار بچے ہیں۔ وہ اپنے شوہروں کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ یہ ایسی نیم بیوائیں ہیں کہ جوغیریقینیت کی صلیب پرلٹکی ہوئیں ہیں اور دوسری شادی بھی نہیں کرپا رہیں۔ ان کے بچے اپنے بابا کوہرصبح بلاتے ہیں کہ بابا اب توگھرآ جائوہمیں بے سہارا چھوڑ کرکہاں چلے گئے ہو۔ مگر لاپتہ کشمیری نوجوانوںکے لواحقین کواپنے پیاروں اوراپنے عزیزوں کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ۔ زمین کی تہہ اورخلاکی وسعتیں ان کے وجود کے اقرار سے عاری ہو گئی ہیں۔ کشمیرمیں قابض بھارتی فوج کے قائم کردہ فوجی کیمپ،عقوبت خانے جیلیں اورتھانے یعنی کشمیری مسلمانوں کے یہ ذبح خانے ،لاپتہ کشمیری نوجوانوںکا پتہ دینے یا سراغ بتانے سے قاصر ہیں۔ جبری گمشدگی بہت بڑی مصیبت ہوتی ہے۔جولواحقین کو مرنے دیتی ہے نہ جینے دیتی ہے ۔ کوئی مرجاتا ہے تو اس کی لاش دیکھ لواحقین کو تسلی ہو جاتی ہے۔ لیکن کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں گمشدگان کے لواحقین ایک ایسے کرب میں مبتلا ہیں کہ ان کے عزیزوں کا یقینی طور پر زندہ ہونے یاان کی شہادت پاجانے کاکوئی ثبوت ،کوئی شہادت موجود نہیں۔ ایسے عالم میںمصیبت انہیںشش جہت گھیرے بیٹھی ہے۔ یہ کشمیر ی مسلمانوں کے دلوں اوران کے دماغوں پر ایک ایسی گہری چوٹ ہے جس سے اٹھنے والے دردکی ٹھیسوں کی کوئی حد نہیں۔ مصیبت کے شکارخاندان اور ہرکشمیری متنفس کا سفاک بھارت سے ایک ہی سوال ہے کہ بتایا جائے ان کے پیاروں اورا ن کے عزیزوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ کشمیری گمشدگان کے لواحقین کا عالمی اداروں سے سوال ہے کہ2010ء کو کشمیر میںجن ہزاروں گمنام قبروں کا انکشاف ہوا تو ڈی این اے ٹیسٹ کرکے دیکھاجائے کہ گمنام قبروں میں کون لوگ مدفون ہیں۔ وہ سوال کر رہے ہیں کہ کیوں نہیںبھارت سے پوچھا جاتا ہے کہ ہمارے بچوں کوگھروں سے اٹھایا تو وہ کہاں ہیں۔