اس لق و دق عالَم میں، یاد ِرفتگاں بڑا سہارہ ہے۔ گْزر جانے والے بزرگوں کو یاد کرنا، گویا خود کو جِلانا ہے! پچھلے ایک کالم میں، ایسی ہی شخصیات کو یاد کر کے، آنسو بہائے گئے تھے۔ یاروں کو یہ رونا، پسند آ گیا۔ کہا گیا کہ یہ رونا روتے رہو، بہت مزہ آ رہا ہے۔ بزرگوں کے قصے یوں بھی بڑے دلچسپ ہیں اور کسی استاد کے اس شعر کے مصداق۔ حکایت ِقد ِآن یار ِدلنواز کْنیم بہ این بہانہ، مگر عْمر ِخود دراز کْنیم میری نپی تْلی رائے ہے کہ سیاسی لیڈروں میں سندھی، اور عوام میں پٹھان، بڑی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی پنجاب میں بھی ایک آدھ شخصیت، ایسی ہو گْزری ہے، جس نے سب کے چھکے چھْڑا دیے ہیں۔ پنجاب کے سابق گورنر الطاف حْسین مرحوم، اسی پائے کے سیاستدان تھے! سن پچاسی کی غیر جماعتی اسمبلی، گھْٹن اور پابندیوں کے طویل دور کے بعد وجود میں آئی تھی۔ بغاوت کا جذبہ اس میں موجود تھا۔ یہ نہ ہوتا تو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے چہیتے خواجہ صفدر کے مقابلے میں اسپیکر، سید فخر امام کو کیوں چْنتے؟ یاد رہے کہ خواجہ صفدر والد ِنامدار تھے جمہوریت کے تازہ علمبردار خواجہ آصف کے! کہ ہم نے انقلاب ِچرخ ِگرداں یوں بھی دیکھے ہیں اسی اسمبلی میں چودھری الطاف حْسین عدالتی جنگ جیت کر، جب حلف اٹھانے کے لیے آئے تو ان کے مخالف کو عدالت سے بروقت حکم ِامتناعی دلانے کے لیے، اراکین ِاسمبلی کی اکثریت، ایوان سے باہر چلی گئی! نہ کورم پورا ہوا اور نہ چودھری صاحب حلف اٹھا سکے۔ ان کا مخالف حکم ِامتناعی لے کر سْرخرْو ہوا اور چودھری صاحب ہار گئے۔ یہ اَور بات کہ میدان ِسیاست میں یہ چودھری صاحب کی آخری شکست تھی! پنجاب کے جب وہ گورنر بنے ہیں تو شریف برادران کو اتنا زچ کر دیا کہ گورنر ہائوس پر شب خون مارنے کا پورا بندوبست کر لیا گیا۔ چودھری صاحب کو ان کے رفقاء نے مشورہ دیا کہ یہ رات، وہ کہیں اَور بسر کریں۔ لیکن چودھری صاحب ڈٹے رہے اور اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ شریفوں کی تیاری اتنی مکمل تھی کہ اگلے روز صبح کے اکثر اخبارات میں، قبضے کی خبر چھپوا دی گئی۔ بقول ِآتش آیا تھا بْلبْلوں کی ترکیب میں گْلوں نے ہنس ہنس کے مار ڈالا، صیاد کو چمن میں اس ہنس ہنس کے مار ڈالنے کے سلسلے میں، پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا واقعہ کیسے فراموش ہو؟ چودھری صاحب کے مشورے پر، یہ اسمبلی جب تحلیل ہو گئی تو شریف برادران، بقول ِبے نظیر بھٹو، کینگرو کورٹ سے حکم ِامتناعی لے آئے۔ ابھی بغلیں بجانے کا آغاز ہی ہوا تھا کہ چودھری صاحب نے دوبارہ اسمبلیاں تڑوا دیں! چودھری صاحب بہت پڑھے لکھے اور پْرانی وضع کے آدمی تھے۔ ان کی وضع داری اور دلداری کا یہ ذاتی واقعہ سْنیے۔ میرے والد اظہر سہیل مرحوم اور چودھری صاحب میں بڑی دوستی تھی۔ یہ غالباً سن بانوے کی بات ہے۔ چودھری صاحب ان دنوں، ایم این اے ہوسٹل کے کمرہ نمبر تیس میں قیام کیا کرتے اور یہیں دوستوں کی پھڑ جما کرتی۔ ایک روز وفاقی وزیر عبدالستار لالیکا نے والد ِمرحوم کو بتایا کہ ایک اجلاس میں فْلاں وزیر صاحب نے "سفارش" کی ہے کہ اظہر سہیل کی ٹانگیں تڑوا دی جائیں۔ والد صاحب سیدھے چودھری صاحب کے پاس گئے اور یہ واقعہ گوش گزار کر دیا۔ چودھری صاحب نے ذرا سے تفکر کے بعد، اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ گھبرائیے نہیں! اس کا توڑ میرے ذہن میں آ گیا ہے۔ آپ ایسا کیجیے کہ آٹھ دس صحافیوں کے ناموں کی، ایک فہرست مجھے دے دیجیے۔ میں یہ "ہِٹ لسٹ" کل ایوان میں پیش کر دوں گا! یہی ہوا اور وزیر صاحب پر چوٹوں اور چرکوں کا سلسلہ مزید تیز کر دیا گیا! سچ ہے کہ چودھری صاحب کے بعد، اس کینڈے کا اور ایسا طرح دار سیاستدان نہیں ہوا۔ خدا مغفرت کرے۔ مولانا کوثر نیازی کا نام، اب سْننے میں بھی کم آتا ہے۔ بڑی دلچسپ شخصیت تھے مولانا بھی۔ اوسط درجے کے شاعر، اچھے نثرنگار اور عمدہ مقرِر! ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مشہور شاعر احمد فراز کی جان کے، یہ لاگو ہو گئے تھے۔ اس الزام میں سچائی ہو سکتی ہے۔ مگر جن لوگوں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، بلکہ اگر پڑھا بھی ہے تو انہیں یقین کرنے میں تامل رہے گا۔ مولانا کو زاہد ِ خْشک سمجھنا، بالکل غلط ہے۔ بلکہ وہ بڑے آزاد خیال اور ترقی پسند تھے۔ احمد فراز شاعر بہت اچھے تھے، لیکن ان کی شخصیت میں بھی، متاثر کرنے والی کوئی شے تھی؟ یہ دیکھ لیجیے کہ جب احمد فراز پر اور فہمیدہ ریاض پر کڑا وقت پڑا، تو فہمیدہ صاحبہ بھارت تشریف لے گئیں اور فراز صاحب لندن! اس پر سلیم احمد مرحوم نے وہ تاریخی فقرہ کہا تھا کہ دونوں کو "غیرت مندی" کی زندگی گزارنے کے لیے، پاکستان واپس آنے دینا چاہیے! خیر، ذکر تھا مولانا کوثر نیازی کا۔ ان کی وسیع المشربی کا واقعہ دیکھیے۔ جوش صاحب کا الحاد، اکثر شاعروں اور ادیبوں کے نزدیک، مْسلم ہے۔ کم لوگ واقف ہوں گے کہ جوش ملیح آبادی، اسلام آباد منتقل ہو کر، سخت تکلیف میں آ گئے تھے۔ اس وقت ان کی دست گیری، مولانا کوثر نیازی نے کی تھی۔ وہ بھی کچھ اس طور کہ جوش صاحب، ہمیشہ رطب اللسان رہے اور ان کی خوبیوں کی قسمیں کھاتے رہے۔ متنازعہ سہی، اس کھْلے مشرب کے، مولانا بھی بس آخری آدمی تھے۔ سید ابوالاعلٰی مودودی بھی، جوش صاحب کے سلسلے میں یاد آ رہے ہیں۔ سید صاحب شروع سے ہی، نستعلیق اور شائستہ تو تھے ہی، نہایت نڈر بھی تھے۔ حیدرآباد دکن سے جوش صاحب کو، جب نِکالا ملا ہے، تو وہاں کے سارے قریبی دوست، ان کے سائے سے بھی بدکنے لگے۔ جوش صاحب جب ریلوے اسٹیشن پہنچے تو انہیں الوداع کہنے کو، صرف دو لوگ آئے تھے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے برادر ِبزرگ ابوالخیر مودودی! اظہر سہیل مرحوم نے جوش صاحب سے انٹرویو میں پوچھا تھا کہ مودودی صاحب اور آپ، ایک دوسرے کا اتنا احترام کرتے ہیں، ایک دوسرے کے نظریات سے متاثر بھی ہوتے ہیں؟ اس پر جوش صاحب نے بالبداہت کہا۔ الحمدللہ! ہم دونوں میں، ایک دوسرے سے متاثر ہونے کی صلاحیت، سرے سے مفقود ہے! ایک فقرہ, خود سید صاحب کا بھی سنتے چلیے۔ جب وہ کراچی گئے اور جوش صاحب کو خبر ملی تو فوراً ان کی اقامت گاہ پر پہنچے اور اصرار کیا کہ مولانا ان کے یہاں اْٹھ آئیں۔ اس پر مولانا نے مسکرا کر کہا کہ رہنے دیجیے جوش صاحب! اس میں میری بھی بدنامی ہو گی اور آپ کی بھی! بر سبیل ِتذکرہ، یاد رہے کہ مولانا کے قلم یا زبان سے پاکستان کی کبھی مخالفت نہیں ہوئی۔ یوں تو جماعت والے خود پراپیگنڈا کے بادشاہ ہیں۔ مگر اس معاملے میں، یہ خود پراپیگنڈے کا شکار ہوئے ہیں! مولانا اس پائے اور نوک کے انسان تھے کہ اگر وہ پاکستان کے مخالف رہے ہوتے تو ادھر کا رْخ بھی نہ کرتے۔ اس سے کم کی، ان سے توقع ہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہ چند پْرانے بزرگ تھے، جن کے دَم سے، سیاست نرا بازار اور بازاریت نہیں تھی۔ ان کی وضع داریاں اور دلداریاں خیال و خواب ہوئیں۔ اور کوئی نہیں ہے اب ایسا جہان میں غالب جو جاگنے کو ملا دیوے، آ کے، خواب کے ساتھ!