سنہ دو ہزار بیس کے اوائل میں نمودار ہونے والی کورونا وبا کے بعد عالمی معیشت میں مندی ‘اشیا کی رسد کے نظام (سپلائی چین) میں خلل اور مہنگائی نے پوری دنیا کو شدید طور سے متاثر کیا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں بڑے پیمانے پر کورونا ویکسی نیشن کے بعدرواں برس عالمی معیشت بحال ہوئی لیکن اب وائرس کی نئی قسم اومیکرون آنے سے یورپ میں ایک بار پھرمعمولاتِ زندگی متاثر ہوگئے ہیں۔ وبا کے باعث دنیا بھر میں اشیا کی رسد کے نظام (سپلائی چین) میں تعطل آنے سے کئی اجناس اور مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ دنیا افراط زر کی لپیٹ میں ہے۔ بینکوں کی شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ اگلے برس ان حالات میں دنیا کی معاشی ترقی کی رفتار قدرے کم رہنے کی توقع ہے جس کا اثر پاکستان ایسے ترقی پذیر ممالک پر پڑے گا۔ بین الاقوامی معیشت امریکہ اور چین کے تناؤ سے بھی متاثرہورہی ہے۔ چین کے خلاف امریکہ کے پاس دو اہم ہتھیارہیں۔ ٹیکنالوجی اور تجارت پر پابندیاں۔ امریکہ چین کی ترقی کی رفتار کو سست کرنے کی خاطر اسے امریکی ٹیکنالوجی منتقل کرنے یا اس تک رسائی پر پابندیاں عائد کررہا ہے۔ جیسے چینی مواصلات کی کمپنی ہوآوے پر گوگل کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر اینڈرائیڈ حاصل کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ ٹیکنالوجی پر قدغن لگانے کا یہ عمل خاص طور سے مصنوعی ذہانت‘ روبوٹکس‘ سیمی کنڈکٹرز کے شعبوں میں اگلے برس مزید تیز ہوسکتا ہے تاکہ امریکی اور یورپی کمپنیوں کو چین سے کاروبار کرنے اور وہاں سرمایہ کاری کرنے میںمشکلات پیش آئیں اور وہ چین کی بجائے دوسرے ملکوں کا رُخ کریں۔ امریکہ نے چین سے درآمدات پر ٹیکسوں میںاضافہ کیا ہے۔ اگریہ رجحان جاری رہا تو دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ بڑھے گی ۔ امریکہ اور چین کے درمیان کشمکش کا ایک اہم مقام تائیوان ہے جہاں تناؤروز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ تائیوان دنیا کوبشمول چین کمپیوٹر چپ ‘ سیمی کنڈکٹرفراہم کرنے والا مرکز ہے۔ چین تائیوان کو اپنا باغی صوبہ سمجھتا ہے ۔ تائیوان ایک نقطۂ اشتعال ‘ فلیش پوائنٹ ہے لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ چین اس پر حملہ کرکے قبضہ کرلے کیونکہ ایسے اقدام سے چین عالمی برادری کونا راض کرکے اپنی تجارت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہے گا۔ چین پر دباؤ بڑھانے کی خاطر امریکہ نے بیجنگ میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپک کھیلوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ۔ بہانہ ہے کہ چین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے۔تاہم رُوس ان کھیلوں میں شریک ہوگا۔رُوس اور چین کے درمیان تزویراتی نوعیت کا جامع اشتراک وجود میں آچکا ہے ۔ چین کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیل اور گیس سے مالامال رُوس کے ساتھ سائبیریا کے زمینی راستے سے گیس پائپ لائن بچھا ئی جارہی ہے۔ ماسکو نے تائیوان کے معاملہ پرکھل کر چین کا ساتھ دیا ہے۔ صدر پیوٹن نے حالیہ بیان میںکہا ہے کہ ان کا ملک چین کے اشتراک سے ہائی ٹیک ہتھیار بنا رہا ہے۔ دونوں ممالک خلا‘ ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی تیاری میں مشترکہ کام کررہے ہیں۔ رُوس کی چین سے بڑھتی ہوئی قربت کی ایک وجہ یورپ اور امریکہ کا اس سے معاندانہ رویہ ہے۔ روسی سرحد پر واقع یوکرائن کے ملک میں امریکہ کا اپنی پٹھو حکومت کو اقتدار دلانا اور اس ملک کو نیٹو میں شامل کرنے کے منصوبے ماسکو کے لیے باعث تشویش ہیں۔ امریکہ کے تمام اتحادی اب چین کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط بنا رہے ہیں۔ سعودی عرب چین کی مدد سے بیلسٹک میزائیل تیار کرنے کے منصوبہ پر کام کررہا ہے۔ یورپ کے تجارتی مفادات امریکہ سے زیادہ چین سے وابستہ ہیں۔ یورپی ممالک دونوں بڑی طاقتوں سے اچھے تعلقات رکھنے اور یورپی یونین کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل پیراہیں۔ جرمنی اور فرانس میں تعاون مزید فروغ پانے کے امکانات ہیں۔ جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کا چانسلر منتخب ہوگیا ہے ۔ اس پارٹی کی روایتی پالیسی ہے کہ یورپی یونین کو مضبوط بنایا جائے۔ آنے والے برس میں یورپی یونین کے ممالک میں سرمایہ کاری‘ ماحولیات اور توانائی کے شعبوں میں بڑھتا ہوا تعاون یورپ کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوگا۔ یورپ کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں سیاسی استحکام ہوجائے ‘ خانہ جنگی نہ بھڑکے اور انسانی المیہ نہ جنم لے۔ بصورت دیگر افغانستان سے مہاجرین کے قافلے وسط ایشیا اور مشرقی یورپ سے ہوتے ہوئے امیر یورپی ممالک کے دروازے تک پہنچ جائیں گے۔ یورپی ممالک کی آبادی مزید مسلمان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے کسی طور تیار نہیں۔ یورپی ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ بھی کریںلیکن عملی طور پر اس سے تعاون کرتے رہنا ان کی مجبوری ہے۔ عالمی امن کا ایک اہم معاملہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے تعلق رکھتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر کیے گئے معاہدہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور ایران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ صدر بائیڈن کی انتظامیہ اس معاہدہ کو بحال کرنے کے لیے ایرانی حکومت سے مذاکرات کررہی ہے جو اسوقت مشکلات کا شکار ہیں ۔اسرائیل مذاکرات کی ناکامی پر ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرنے کی تیاری کرچکا ہے لیکن توقع یہی ہے کہ معاملہ بات چیت سے کچھ نہ کچھ حل ہوجائے گا۔بین الاقوامی سلامتی کے لیے ٹیکنالوجی کی ترقی سے جن مسائل نے جنم لیا ہے ان میں اہم ایشو سائبر سیکیورٹی کا ہے۔امریکہ نے چین اور روس پر سائبر جاسوسی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے روبوٹ اور مصنوعی ذہانت استعمال کرکے ایران کے ایٹمی پروگرام کے سربراہ کو قتل کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائبر جنگ میں تیزی آرہی ہے۔ رواں برس انڈیا کے ہیکرز کئی مرتبہ پاکستان کی اہم سرکاری ویب سائٹس کو ہیک کرچکے ہیں۔ نئے برس میں سائبر حملے اور ان کی روک تھام دفاع اور سلامتی کا اہم موضوع ہوگا۔