اسلام آباد ( نامہ نگار؍خبرنگار ) احتساب عدالت نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے مزید 30سوالوں کے جوابات ریکارڈ کر لئے ، نواز شریف کی جانب سے 30سوالات کے جوابات یو ایس بی میں عدالت میں جمع کرائے گئے جس سے قبل ان کے وکلائنے ان میں درستگی کرائی۔جمعہ کو نواز شریف نے اپنے 342کے بیان میں کہا کہ قطری شہزادے نے جے آئی ٹی کو سوا لنامہ فراہم کرنے کا کہا تھا ، حمد بن جاسم کی جانب سے یہ ایک معقول درخواست تھی کہ سوالنامہ دیا جائے ، جے آئی ٹی نے غیر ضروری طور پر بیان ریکارڈ کرنے کے لئے سخت شرائط رکھیں ، جے آئی ٹی کے طریقہ کار سے لگا کہ وہ قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنا نہیں چاہتی ، العزیزیہ کی فروخت یا اس سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا کبھی حصہ نہیں رہا ، شریک ملزم نے 6 ملین ڈالر میں العزیزیہ کے قیام کا بیان میری موجودگی میں نہیں دیا ، شریک ملزم کا بیان قابل قبول شہادت نہیں ، شریک ملزم حسین نواز اس عدالت کے سامنے بھی موجود نہیں ، یہ درست نہیں کہ العزیزیہ حسین نواز نے قائم کی ، العزیزیہ ملز میرے والد نے قائم کی ، العزیزیہ سٹیل ملز کا کاروبار حسین نواز چلاتے تھے ، جے آئی ٹی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ قطری خطوط کو محض افسانہ قرار دے ، قطری کے خطوط میں نے کبھی بھی کسی فورم پر اپنے دفاع کے لئے پیش نہیں کئے ، میں نے ذاتی طور پر کبھی قطری خطوط پر انحصار نہیں کیا، العزیزیہ کی ملکیت کا دعویٰ کبھی نہیں کیا ، ہمیشہ کہا ہے کہ العزیزیہ سٹیل ملز کی ملکیت سے کچھ لینا دینا نہیں ، حسن اور حسین نواز کا بیان جے آئی ٹی میں میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوا ، حسن اور حسین نواز اس عدالت میں پیش ہوئے نہ ہی ان کا ٹرائل میرے ساتھ کیا جا رہا ہے ، حسن اور حسین نواز سے منصوب کوئی بھی بیان اس کیس میں میرے خلاف شواہد کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا ، حسن اور حسین نواز کے انٹرویو بطور شواہد پیش نہیں کئے جا سکتے ، تفتیش کے دوران کسی بھی شخص کا دیا گیا بیان قابل قبول شہادت نہیں۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی ۔ علاوہ ازیں احتساب عدالت نے فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے ٹرائل کی مدت میں سپریم کورٹ سے توسیع کی درخواست کردی ۔ جج ارشد ملک نے سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے جس میں فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز میں ٹرائل مکمل کرنے کے لئے مزید وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈ لائن میں ٹرائل مکمل کرنا ممکن نہیں۔