اسلام آباد (خبرنگار) سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی اورسندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغاکے خلاف صدارتی ریفرنسز کے معاملے میں ایک اور آئینی پٹیشن عدالت عظمی میں دائرکردی گئی ہے جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے ۔آئینی پٹیشن سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر عابد حسن منٹو اور اے آر رحمان نے مشترکہ طور پر دائر کی ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسی اورجسٹس کے کے آغا کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کالعدم قرار دینے کی استدعاکی گئی ۔آئینی درخواست میں موقف اپنایاگیا کہ دونوں ججز کیخلاف ریفرنسز کو انکی باری پر دیکھا جائے کیونکہ دونوں ججز کیخلاف ریفرنسز کو آئوٹ آف ٹرن ٹیک اپ کیا گیا ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ کونسل کے پاس 26 ریفرنسز پہلے سے زیر التوا ہیں اسلئے پہلے ان ریفرنسز کا فیصلہ کیا جائے اور باری آنے پر جسٹس قاضی اور جسٹس آغا کے معاملے کو دیکھا جائے ۔دونوں ججز کیخلاف ریفرنسز کو آئوٹ آف ٹرن ٹیک اپ کرناآئین کے آرٹیکل 10 اے اور25 کی خلاف ورزی ہے ۔درخواست میں صدارتی ریفرنسز کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے اور موقف اپنایا گیا کہ دونوں ججز کیخلاف ریفرنسز کو متعلقہ حکام نے عام کیا لیکن ابتک جو چار سو ریفرنسز سپریم جوڈیشل کونسل نمٹا چکی ان کے بارے عوام کو کچھ پتہ نہیں ،ان ریفرنسز کا مقصد دونوں ججز کو بدنام اور سیکنڈلائز کرنا مقصود ہے ۔مزید کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے انسداد بدعنوانی شہزاد اکبر اور وزیر قانون فروغ نسیم نے حاضر ججز کیخلاف توہین آمیز اعلامیہ جاری کیا جبکہ وزارت قانون نے وکلا برادری کی حمایت حاصل کرنے کیلئے 133 بارکونسلز کو 175 ملین روپے جاری کیے جس سے حکومت کی بدنیتی واضح ہوجاتی ہے ۔درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کے بارے بھی قانونی سوالات اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ جس جس جج کیخلاف شکایت موجود ہے وہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ممبر نہیں بن سکتا۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائزعیسی کا صدر مملکت کو خط لکھناآئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آئینی حق ہے اور صدر کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے شوکاز نوٹس جاری کرنا غیر آئینی ہے ۔ یہ بھی استدعاکی گئی کہ ماضی میں کسی جج کے مستعفی ہونے پر نمٹائے گئے ریفرنسز کو دوبارہ سنا جائے ۔