اسلام آباد (خبرنگار) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیدیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے ریفرنس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ ریفرنس بنانے میں بدنیتی ثابت نہیں ہوئی لیکن ریفرنس بنانے کے عمل میں آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔تفصیلی فیصلے میں صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی 11 وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ 177صفحات پر تفصیلی فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے جبکہ جسٹس فیصل عرب نے 23 اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے 24صفحات پر اپنا اپنا الگ نوٹ تحریر کیا ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اکثریتی فیصلے میں وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کو ریفرنس کے اصل معمار قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے سب کچھ ان کے کہنے پر کیا اور اپنا آزادانہ مائنڈ استعمال کیا اور نہ غیر جانبدارانہ رائے حاصل کی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدرمملکت آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت حتمی رائے قائم کرسکے اور نہ ہی ریفرنس کی خامیوں کو دیکھ سکے ۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تفتیش کے لئے قانون کے مطابق منظوری حاصل نہیں کی گئی اور غیر قانونی طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ حاصل کیا گیا۔ فیصلے میں جسٹس قاضی اور اہلخانہ کی جاسوسی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ جائیداددوں کی تفصیلات انٹر نیٹ سے حاصل کی گئیں جبکہ اس الزام کو بھی مسترد کیا گیا کہ ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے نتیجے میں بنایا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریفرنس بنانے میں نہ صرف آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں بلکہ افتخار محمد چودھری کیس کے فیصلے میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو انتظامی جبر سے تحفظ کے لئے وضع کردہ اصولوں کو بھی پامال کیا گیا۔۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کے خلاف الزامات انتہائی حساس معاملہ ہے اس لیے اسے انتہائی احتیاط اور تدبر کے ساتھ دیکھنا چاہیئے ، تاہم جج احتساب سے مبرا نہیں۔قرار دیا گیا ہے اعلیٰ عدلیہ کے جج مسلح افواج کے افسران اور عوام کے منتخب نمائندے قانون کے سامنے اپنے کیے پرجواب دہ ہیں۔ نہ توعدلیہ اور نہ ہی کوئی اور ادارہ احتساب سے مبرا ہے ۔ جج پر لگائے گئے الزامات کی انکوائری نہ صرف ان کی ذاتی ساکھ بلکہ ادارے کے وقار کے لیے بھی ضروری ہے ۔ معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سرینہ عیسیٰ پبلک سرونٹ نہیں ،جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کیخلاف معاملہ جوڈیشل کونسل میں نہیں چل سکتا۔ چونکہ برطانیہ کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے اس ان جائیدادوں کی خرید کے لیے ذرائع آمدن اور ترسیلات زر کی وضاحت ضروری تھی ۔ فیصلے میں منی لانڈرنگ کے الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے آئین و قانون سے تجاوز کیا،آزادعدلیہ کسی بھی جمہوری ،مہذب معاشرے کی اقدارمیں شامل ہے ،صدر پاکستان نے صوابدیدی اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس مروجہ قانون کے خلاف دائر کیا، فیصلہ کے آغاز میں سورۃ النساء کا حوالہ دیا گیااور کہا گیا کہ جسٹس فائز عیسی کیخلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا،ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں لندن جائیدادوں کی بنیاد پر بنا، کوئی شق نہیں کہ ججز کیخلاف ریفرنس کو خفیہ رکھنا چاہیے ، صدر مملکت نے آئین اور قانون سے تجاوز کیا،ریفرنس کے مواد کی تحقیق کرنے والے صدر مملکت کو بریفنگ دے سکتے ہیں مشورہ نہیں، صدر مملکت نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا، یہ دونوں حضرات ریفرنس بنانے کے عمل میں شامل ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ فیصلے سے لاعلم تھے ، جسٹس فائز عیسیٰ نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ریفرنس کے نکات پڑھے تھے ، فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستوں کوبدنیتی کے شواہد کے طور پرپیش نہیں کیا جاسکتا، فیصلوں کیخلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا آئینی و قانونی حق ہے ، ریفرنس نمبر ایک 2019 کو غیر قانونی قرار دیکر کالعدم قرار دیا جاتا ہے ،درخواست گزار کو 17 اگست 2019 کو جاری نوٹس واپس لیا جاتا ہے ،فیصلے کے سات روز کے اندر ان لینڈ ریونیو کمشنر خود متعلقہ نوٹسز قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کو جاری کریں،برطانیہ میں خریدی جائیدادوں کے ذرائع آمدن پوچھے ،یہ نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسی کی سرکاری رہائش گاہ پر بھیجے جائیں،ایف بی آر کے نوٹسز پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے متعلقہ تفصیلات پر جواب دیں، دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ ایف بی آر کو جواب دیئے جائیں،اگر کوئی ریکارڈ پاکستان سے باہر کا کہا ہے تو متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بروقت فراہم کریں، انکم ٹیکس کمشنر اپنی کاروائی میں کسی موڑ پر التوا نہ دے ۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایک حاضر سروس جج کیخلاف انکوائری کرنا کونسل کا کام ہے نہ کہ کسی اور کا،کوئی بھی جج قانون سے بالاتر نہیں، صدر پاکستان نے ریفرنس دائر کرنے میں اپنے صوابدیدی اختیارات کا درست استعمال نہیں کیا، صرف یہ گراؤنڈ ہے ریفرنس کو خارج کرنے کی، عدلیہ کی آزادی اس کی خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں سے متاثر نہیں ہوتی،ریفرنس داخل کرنے کا سارا عمل آئین و قانون کے خلاف تھا، موجودہ کیس میں شہزاد اکبر کی تعیناتی غیرقانونی قرار نہیں دی جا سکتی، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل میں کوئی بڑی قانونی خامی نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کی شہزاد اکبر کو عہدے سے ہٹانے کی استدعا مستردکرتے ہیں، معاون خصوصی کا عہدہ سیاسی، تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی وکلا برادری میں بڑی قدر ہے ، جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر انکے مالی معاملات کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا تو ضروری ہے کہ وہ اس داغ کو دھوئیں،ایف بی آرجسٹس فائزعیسیٰ کے معاملے میں قانون کی مکمل پاسداری کرے ،ایف بی آر کی جانب کونسل کو آنے والی رپورٹ صرف معلومات کی حیثیت رکھے گی،ایف بی آر کی رپورٹ پر کارروائی کونسل کیلئے لازم نہیں،کونسل ایف بی آر کی رپورٹ کا جائزہ لے کر جج کے کنڈکٹ کا فیصلہ ازخود کر سکتی ہے ،ایف بی آر سے موصول ہونے والا مواد پر کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی، فیصلہ میں یہ بھی کہاگیاکہ عدلیہ کی آزادی اس کی خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں سے متاثر نہیں ہوتی،ججز کا احتساب ایک جمہوری اور بیدار معاشرے کی ضرورت ہے ، بلاتعصب، بلا تفریق اور منصفانہ احتساب آزاد عدلیہ کو مضبوط کرتا ہے ،تفصیلی فیصلے میں صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی 11 وجوہات بیان کی گئی ہیں۔پہلی وجہ بتائی گئی کہ صدر اور وزیراعظم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تفتیش کی منظوری نہیں دی، یہ منظوری وفاقی وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم نے دی جس کا انہیں آئینی و قانونی اختیار نہیں تھا۔دوسری وجہ یہ بتائی ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 116 ایک کے تحت نوٹس دینا ضروری تھا جو نہیں دیا گیا۔تیسری وجہ کے مطابق ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 116 ایک کی تشریح کے بغیر یہ فرض کر لیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے بیوی اور بچوں کی جائیدادیں ظاہر کرنا لازمی تھا۔چوتھی وجہ بتائی گئی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔پانچویں وجہ بتائی گئی ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا جس سے ظاہر ہو کہ جسٹس قاضی فائز فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ۔چھٹی وجہ بتائی گئی کہ صدر مملکت کو وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے غیر قانونی ایڈوائس دی۔ساتویں وجہ بتائی گئی کہ صدر نے قانونی نکات پر تیسرے فریق سے بامقصد ایڈوائس نہیں لی۔آٹھویں وجہ بتائی گئی کہ صدر مملکت ریفرنس میں موجود نقائص کو سمجھنے میں ناکام رہے ۔نویں وجہ بتائی گئی کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 209 پانچ کے تحت اپنی رائے قائم نہیں کی۔دسویں وجہ بتائی گئی کہ جواب گزاروں نے جسٹس فائز اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس گوشواروں تک غیر قانونی طور پر رسائی حاصل کی۔گیارہویں وجہ بتائی گئی کہ معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی۔تفصیلی فیصلے میں ان وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ صدارتی ریفرنس دائر کر کے قواعد و ضوابط اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی اس لیے یہ ریفرنس کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔