اسلام آباد(خبر نگار)ریفرنس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے دوسرے وکیل بابر ستار نے ٹیکس سے متعلق قانونی نکات پر بحث کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ ایف بی آر نے تسلیم کیا کہ بیرونی ملک جائیدادیں ان کے موکل کی اہلیہ کی ہیں، اس لئے ان کے موکل پر مس ڈیکلریشن کا الزام غلط ہے جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل کو کہا کہ ٹیکس دستاویزات سے ثابت کر یں ،محض ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے سے کوئی مالی طور پر خود مختار نہیں ہوجاتا۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ معاملہ مس ڈکلیریشن کا نہیں بلکہ نان ڈکلیریشن کا ہے ۔فل کورٹ بینچ نے صدارتی ریفرنس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر فریقین کی د رخواستوں کی سماعت کی ۔ بابر ستار نے کہا کہ ریفرنس میں ان کے موکل کا بنیادی حق مجروح کیا گیا۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہا صرف ٹیکس کمشنر پر معاملہ چھوڑ دینا آرٹیکل 209 کی تضحیک ہوگی،ممکن ہے کونسل ٹیکس کمشنر کو مناسب فورم قرار دیتے ہوئے فیصلہ کرنے دے ۔ آپ نے دستاویز سے بتاناہے کہ جسٹس فائزعیسیٰ کی اہلیہ زیر کفالت ہیں یا نہیں؟جس طرز کا خرچ ہے وہ آمدن کے مطابق نہیں،کیس میں جج کے مس کنڈکٹ کا الزام ہے ، کیاجج نے اپنے خاندان کے اثاثے ظاہر نہیں کرنا ہوتے ؟بابر ستار نے جواب دیا کہ جج نے صرف اپنے اثاثے ظاہر کرنا ہوتے ہیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ اس کا مطلب ہے صدر اور وزیر اعظم طے شدہ طریقہ کار کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ بابر ستار نے کہا کہ 5اگست 2009ء کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بنے ،سپریم کورٹ میں آنا نئی تعیناتی ہے ؟ جس پرجسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ آنے پر ہائی کورٹ کا کنڈکٹ ختم ہو جاتاہے ؟بابر ستار نے کہا کہ جی بالکل یہ میری لیگل معروضات کا حصہ ہے ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاالزام جائیدادوں کی مالیت کا نہیں ذرائع آمدن کا ہے ۔ جسٹس منیب اختر نے بابر ستار سے کہاکہ آپ صرف منیر اے ملک کی اِنکم ٹیکس پر معاونت کرنے آئے تھے مہربانی کر کے اسی تک رہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہابظاہر تینوں جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی ہیں۔ بابر ستار نے کہاکہ نیویارک میں میری تنخواہ اچھی تھی تو فلیٹ خرید لیا ،اگر میرے والد جج ہوتے تو شاید انہیں بھی شوکاز نوٹس مل جاتا۔ عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔